مارگلہ نیشنل پارک سے کمرشل سرگرمیاں ختم کرنے کا کیس: نعیم بخاری، چیف جسٹس میں تلخ کلامی
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے مونال ریسٹورنٹ سمیت دیگر کی نظرثانی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا
اسلام آباد(قدرت روزنامہ) سپریم کورٹ میں مارگلہ نیشنل پارک سے کمرشل سرگرمیاں ختم کرنے کے کیس میں مونال ریسٹورنٹ سمیت دیگر کی نظرثانی درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور وکیل نعیم بخاری کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے مونال سمیت مختلف ریسٹورنٹس کی بندش سے متعلق نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی، بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی شامل ہیں جبکہ لاہ منٹانہ ریسٹورینٹ کے وکیل نعیم بخاری روسٹرم پر آگئے۔
سماعت کے آغاز پر پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ نے تو تمام فریقین کی رضامندی سے فیصلہ دیا، رضامندی سے 3 ماہ میں ریسٹورنٹس ختم کرنے کا کہا گیا پھر نظرثانی کس بات کی؟
اس پر وکیل نعیم بخاری نے بتایا کہ رضامندی سے ریسٹورنٹ ختم کرنے کا نہیں کہا بلکہ مجبوری میں بات کی تھی، ہمارے سامنے 2 آپشن تھے کہ یا تو خود سے ریسٹورنٹ ختم کریں ورنہ گرا دیے جائیں گے، میرے مؤکل ڈاکٹر محمد امجد 66 فیصد شیئر ہولڈر ہیں جن کو سنا ہی نہیں گیا، سپریم کورٹ نے جب فیصلہ دیا میرے مؤکل ملک سے باہر تھے۔
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ آپ نیشنل پارک میں کیسے کاروبار کر سکتے ہیں؟ جنگلی حیات کے لیے مختص جگہ پر کمرشل کام کیسے ہوسکتا ہے؟ کیا کاروبار کرنے کا آپ کے پاس لائسنس ہے؟ جس پر نعیم بخاری نے جواب دیا کہ جی بالکل لائسنس ہے، ایف آئی اے نے 2018 میں نوٹس بھی بھیجے، ہمیں رینٹ چار گنا بڑھانے کا نوٹس بھیجا گیا، اگر لائسنس نہ ہوتا تو نوٹس کیوں آتا؟
بعد ازاں چیف جسٹس قاضی فائز اور وکیل نعیم بخاری میں تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔
وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ 1954 میں کیا ہوتا رہا؟ اس پر جسٹس قاضی فائز نے ریمارکس دیے کہ ہماری پیدائش سے پہلے کے معاملات پر ہم پر انگلی نہ اٹھائیں۔
اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ آپ سمجھتے ہیں آواز اونچی کر کے مجھے ڈرائیں گے تو میں ڈرنے والا نہیں، آپ نے خود ذوالفقار علی بھٹو کیس میں سب لکھا ہے، میرے ملک میں کئی بار جن کا اختیار نہیں تھا وہ بہت کچھ کرتے رہے، سپریم کورٹ نے بھٹو ریفرنس کے فیصلے میں لکھا کہ ماضی میں کیا ہوتا رہا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ بخاری صاحب! ہم نے چلیں اپنی غلطیاں مان لیں نا، جس پر وکیل نے کہا کہ ہمیں مؤثر حق سماعت نہیں دیا گیا، ماضی میں ایف آئی اے ریسٹورنٹ مالکان کے خلاف تحقیقات کر چکی ہے، تحقیقات میں نکلا کہ مالکان نے کوئی جرم نہیں کیا ہے۔
اس پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے دریافت کیا کہ بخاری صاحب آپ سنجیدہ ہیں؟ ایف آئی اے کا اس سے کیا کام؟ کئی بار لوگ اپنے خلاف خود بھی کیس کروا لیتے ہیں، آپ ریاست سے جو خدمات لیتے رہے میں ان سے متاثر ہوں، یہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، نیشنل پارک میں جانوروں کے حقوق ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا فیصلہ موجود تھا پھر بھی آپ کمرشل سرگرمیاں کرتے رہے، آپ قوانین کی خلاف ورزی میں ریسٹورنٹ چلاتے رہے، پڑھیں ذرا وہ آپ کا 11 ہزار سالانہ فیس والا جو لائسنس تھا۔
اس پر وکیل نعیم بخاری نے جواب دیا کہ 1999 میں 11 ہزار رینٹ تھا جو بعد میں بڑھا دیا گیا، اسی کے ساتھ نعیم بخاری کے دلائل مکمل ہوگئے۔
بعد ازاں وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میرا بیٹا باہر سے پڑھ کر آیا ہے اور خود کو وکیل تصور کر رہا ہے، آج میں بیٹے کو ساتھ لایا ہوں کے دیکھو عدالت کیسے چلتی ہے، نعیم بخاری نے بیٹے کو نشست پر کھڑا کر کے متعارف کرایا مگر جب دوبارہ نعیم بخاری نے بیٹے کی طرف اشارہ کیا تو نشست خالی ملی۔
وکیل لامونتانا کا کہنا تھا کہ شکریہ مجھے سنا، میرا بیٹا بھاگ گیا شاید، اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ شاید آپ اپنے بیٹے کو متاثر نہیں کرسکے، چیف جسٹس نے کہا کہ شاید آپ کا بیٹا بھی چاہتا ہے نیشنل پارک کو محفوظ رکھا جائے۔
فیصلہ محفوظ
بعد ازاں سپریم کورٹ نے نظرثانی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا ، تمام فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا گیا۔
واضح رہے کہ 11 جون کو سپریم کورٹ نے مارگلہ کی خوبصورت پہاڑیوں پر واقع مونال سمیت نیشنل پارک ایریا سے تین ماہ کے اندر ریسٹورنٹس کو منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین ججوں نے مونال ریسٹورنٹ کو سیل کرنے اور قبضے سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے 11 جنوری 2022 کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔
تاہم، سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف اپیل کو مسترد کر دیا جس میں کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور اسلام آباد وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ مونال کے احاطے کو سیل کرنے کے کا حکم دیا تھا۔
ہائی کورٹ نے یہ بھی قرار دیا تھا کہ مونال کا سی ڈی اے کے ساتھ لیز کا معاہدہ ختم ہو چکا ہے اور 30 ستمبر 2019 کو ری ماؤنٹ، ویٹرنری اینڈ فارمز ڈائریکٹوریٹ کے ساتھ اس کا معاہدہ کالعدم ہوگیا۔
سپریم کورٹ نے سی ڈی اے کو ہدایت کی کہ مونال گروپ آف کمپنیز کو ترجیحی بنیادوں پر تین ماہ کے اندر ریسٹورنٹ کو موجودہ جگہ سے کسی قابل اجازت جگہ پر منتقل کرنے میں سہولت فراہم کرے، چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کی توجہ نیشنل پارک کا تحفظ ہے، آرڈر میں یہ بھی کہا گیا کہ پیر سوہاوہ روڈ پر واقع دیگر تمام ریسٹورنٹس کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے۔