اسلام آباد

9 ستمبر گرفتاریاں: ایاز صادق نے اسپیکر کا عہدہ چھوڑنے کا عندیہ دے دیا


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)قومی اسمبلی کے 9 ستمبر کے اجلاس کے موقعے پر ہونے والی پاکستان تحریک انصاف کے ایم این ایز کی گرفتاریوں اور اس کے بعد اپوزیشن کی جانب سے تنقید کے تناظر میں قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ آیا انہیں اس عہدے پر رہنا چاہیے یا نہیں۔
جمعرات کو اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کے شیخ وقاص اکرم کی تنقید کے جواب میں ایاز صادق نے کہا کہ ’مجھے سوچنا پڑے گا کہ اس نشست پر رہنا ہے یا نہیں‘۔
شیخ وقاص نے کہا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایم این ایز کو اسمبلی کے چوتھے فلور سے گرفتار کیا اور پھر اس دروازے سے باہر بھی لے گئے جو بند ہونے چاہیے تھیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے لگتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سہولت کاری کی گئی۔
تحریک انصاف کے رہنما کی باتوں پر اسپیکر اسمبلی نے کہا کہ ان باتوں سے لگتا ہے کہ اسمبلی میں اس دن جو کچھ ہوا اس میں ساری کوتاہی میری ہے اور اگر ایسا ہے تو مجھے لگتا ہے کہ مجھے اس عہدے پر نہیں رہنا چاہیے۔
تاہم اس کے بعد ایاز صادق اپنی نشست پر ہی رہے اور ایسا کوئی تاثر نہیں ملا کہ وہ اسپیکرشپ کسی اور کے حوالے کرکے ایوان سے جانا چاہ رہے ہوں۔
اسمبلی سے خطاب کے دوران شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ ہمیں دکھ یہ نہیں کہ ہمارے خلاف مقدمات قائم ہوئے اور گرفتاریاں ہوئیں بلکہ اصل دکھ اس بات کا ہے کہ اس مقدس ایوان کا تقدس پامال کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس پارلیمان کے تمام دروازے بند کر دیے گئے تھے اور ہم چھت پر گئے لیکن وہاں بھی (پکڑنے والے) لوگ پہنچ گئے۔
شیخ وقاص کا کہنا تھا کہ یہاں سمجھ نہیں آتی کہ کس نے اجازت دی انہیں اندر آنے کی۔
اس بات پر اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ ’آپ سب کی باتوں سے یوں لگ رہا ہے کہ جیسے یہ سب کچھ میری اجازت سے ہوا اور اگر ایسا ہی ہے تو مجھے اندر جا کر سوچنا چاہیے کہ مجھے یہاں رہنا چاہیے یا نہیں‘۔
قبل ازیں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے ایوان کی کارروائی چلانے کے لیے حکومتی اور اپوزیشن ارکان پر مشتمل خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کی منظوری قومی اسمبلی کے 11 ستمبر 2024 کے اجلاس میں دی گئی تھی۔
کمیٹی پارلیمان، اراکین پارلیمنٹ، آئین، قومی اسمبلی میں قواعد و ضوابط اورکارروائی کے طریقہ کار 2007 اور قومی اسمبلی کی کارروائی کو مؤثر طریقے سے چلانے سے متعلق امور کو زیرغور لا کر سفارشات مرتب کرے گی۔
خصوصی اجلاس کی کمیٹی کا اجلاس
خصوصی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ کل جماعتی مستقل کمیٹی بنانی چاہیے جو قومی سطح پر آئین کی پاسداری اور سیاسی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے کردار ادا کرے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری طرف سے ایک واضح پیغام جانا چاہیے کہ ہماری کسی ادارے سے دشمنی ہے اور نہ کسی جماعت سے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ سب جماعتیں آج ایک جگہ جمع ہو گئیں۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ جو ہوا سو ہوا، کمزوری ہے کہ جتنے ادارے ہیں ان کی آپس میں پیٹی بندی ہے، چاہے وہ فوج ہو، عدلیہ ہو یا کوئی اور ادارہ بس اگر اتحاد نہیں ہے تو بیچارے مجبور سیاستدانوں میں نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ بس اداروں کو یہ بتانا ہے کہ ہمارا سیاسی اکٹھ آپ کے خلاف نہیں ہے۔
اس موقعے پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ اگر ہم سب ایک ہو جائیں تو آئین میں جو بھی منفی شقیں ہیں وہ ہم ہٹادیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب چاہیں تو یہ سب ایک گھنٹے میں ہو جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نہ ہمیں کسی ادارے کی بے عزتی کرنی ہے نہ کسی کو نیچا دکھانا ہے۔
محمود اچکزئی کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو وقعت اور آئین کی بالادستی پارلیمان میں موجود ہر جماعت چاہتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب بھی سیاستدان متحد ہوئے، بےنظیر شہید اور نواز شریف اکٹھے ہوئے تو اچھے فیصلے ہوئے۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ میں چاہوں گا کہ مولانا فضل الرحمان اور عمر ایوب کو بھی کمیٹی کا ممبر بنایا جائے تاکہ یہ ہماری رہنمائی کرسکیں۔
اس موقعے پر مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میں ناراض نہیں ہوں مجھے بھی ممبر بنا لیں۔
چیئرمین کمیٹی خورشید شاہ نے کہا کہ اسپیکر اسمبلی سے کہتے ہیں کہ مولانا کو ممبر بنایا جا سکے تو اچھا ہو گا۔
خواجہ آصف کا خصوصی کمیٹی سے بائیکاٹ کا اعلان
ن لیگی رہنما خواجہ آصف نے کہا کہ میں اس کمیٹی کا ممبر ہی نہیں بنتا۔ اس پر مولانا فضل الرحمان نے خواجہ آصف کو واپس بیٹھنے کا کہا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ یہ کوئی بات نہیں ہوئی کہ ایک سائیڈ سے تنقید ہو، پی ٹی آئی نے 4 سال کیا کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ نوازشریف منت کرتے رہے کہ ان کی اہلیہ بیمار ہیں ان سے ان کی فون پر بات کروائی جائے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی تب سب ٹھیک تھا اور اب سب غلط ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ملک عامر ڈوگر نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ8 ہزار مقدمات ایک سیاسی پارٹی پر دو سالوں میں درج ہوئے ہیں، ہم مقدمات سے نہیں ڈرتے نہ گھبراتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایوان مجھے تحفظ نہیں دے سکتا، تو میں اپنے حلقے کے عوام کو کیسے تحفظ دوں گا۔
انہوں نے اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کرسی سے آپ کو بھی گرفتار کرسکتے ہیں۔ ہمیں آگے بڑھنا چاہیْے، کمیٹی کی سربراہی آپ خود کریں یا حکومت کے اتحادیوں میں سے کوئی کرے۔
عامر ڈوگر کا کہنا تھا کہ ہم 6 ایم این ایز، ایف آئی آرز میں نامزد نہیں ہیں۔ ہم تو اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے تھے، ایف آئی آر ہم پر کل کٹی ہے۔
جو کچھ 10 ستمبر کو ہوا وہ نہیں ہونا چاہئے تھا
اس موقع پر قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رکن زین قریشی کا کہنا تھا کہ اس ایوان میں 10,12 سال کی عمر سے والد کے ساتھ آرہا ہوں، آج بوجھل دل کے ساتھ آپ کے سامنے کھڑا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ جو کچھ 10 ستمبر کو ہوا وہ نہیں ہونا چاہئے تھا، میرے والد آج بھی حق اور سچ کی لڑائی لڑتے ہوئے ایک سال سے اڈیالہ جیل میں ہیں۔زین قریشی کا کہنا تھا کہ نہ گرفتاریوں کا ڈر ہے اور نہ ہی پرچوں کا ڈر ہے۔
آپ کی لیڈرشپ پر ہمیں مکمل اعتماد ہے
انہوں نے کہا کہ جب سے یہ واقعہ رونما ہوا ہے آپ کا کردار اچھا رہا ہے۔آپ کی لیڈرشپ پر ہمیں مکمل اعتماد ہے۔
زین قریشی کے مطابق سانحہ 10 ستمبر جو پارلیمنٹ میں ہوا یہ نہیں ہونا چاہئے تھا،جو بھی فائنڈنگز آئیں اس رپورٹ کو شائع کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ 10 ستمبر کو سانحہ پارلیمنٹ کا نام دے کر ہر سال یوم سیاہ کے طور پر منانا چاہیے۔

متعلقہ خبریں