آج قومی اسمبلی اور سینیٹ میں سپریم کورٹ کے ججز سے متعلق اہم آئینی ترامیم پیش کیے جانے کا امکان
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)قومی اسمبلی کے آج ہونے والے اجلاس میں آئینی پیکج سمیت چیف جسٹس کو توسیع دینے کے لیے حوالے سے آئینی ترامیم پیش کیے جانے کی اطلاعات ہیں جہاں حکومت نے ترامیم کی منظوری کے لیے درکار اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس آج دوپہر تین بجے ہوگا جس میں ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں توسیع کے حوالے سے آئینی ترامیم پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ سپریم کورٹ میں ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال اور ہائیکورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق ججز تقرری کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی کا امکان ہے، نظام انصاف اور عدالتی اصلاحات سے متعلق 22 ترامیم کے پیکج کو منظور کروایا جائے گا۔ ججز کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے اتفاق نہیں ہوسکا، اس لیے طے پایا ہے کہ چیف جسٹس کی تقرری اُسی طریقے سے کی جائے جیسے آرمی چیف کی تقرری کی جاتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ قانون کے بعد 5 سینئر ترین ججز کی سمری وزیراعظم کو ارسال کی جائے گی جس میں سے وہ ایک کو چیف جسٹس بنانے کی منظوری دیں گے۔ اس کے علاوہ ججز کی تقرری کے لیے پارلیمانی کمیٹی اور جوڈیشل کمیشن کا انضمام کردیا جائے گا جہاں حتمی طور پر ججز کی تقرری کو فائنل کیا جائے گا۔
ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے سے متعلق آئینی ترمیم کے لیے حکومت نے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلی ہے۔ سینیٹ میں اکثریت صرف 3 ووٹوں کی دوری پر رہ گئی ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس آج 3 دن بجے اور سینیٹ اجلاس شام 4 بجے ہوگا۔
حکومتی ذرائع نے آئینی ترمیم کے لیے نمبرز پورے ہونے کا دعویٰ کیا ہے تاہم آئینی ترمیم پیش کیے جانے کے حوالے سے حکومتی رہنماؤں کی جانب سے متضاد بیانات سامنے آئے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ آئینی ترامیم کے لیے ہمارے پاس نمبر پورے ہوچکے ہیں۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے گزشتہ روز پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ حکومت کوئی آئینی ترمیم نہیں لا رہی۔ فی الحال اپوزیشن کے اراکین اسمبلی کے مسئلے پر بات چیت ہو رہی ہے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ اگر ججوں کی مدتِ ملازمت میں توسیع کرنی ہے تو پھر یہ کسی ایک جماعت کا فیصلہ نہیں ہو سکتا بلکہ پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی طے کرے گی کہ اس حوالے سے کیا کرنا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما سلمان اکرم راجا نے کہا تھا کہ حکومت آئینی ترمیم کے لیے دھونس اور جبر سے نمبر پورے کرے گی۔ بشمول چیف جسٹس کسی کو بھی اس ترمیم کو قبول نہیں کرنا چاہیے، 5 ججوں میں سے منظور نظر جج کو چیف جسٹس لگانا عدلیہ کے ادارے کو تتر بتر کرنا ہے۔
واضح رہے کہ آئینی ترمیم کے لیے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے الگ الگ دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ جس کے لیے قومی اسمبلی میں 224 اور سینیٹ میں 63 ارکان کے ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں حکومتی نشستوں پر 211 ارکان جبکہ اپوزیشن بینچز پر 101 ارکان موجود ہیں۔ ایسے میں اگر حکومت آئینی ترمیم لانا چاہے تو اسے مزید 13 ووٹ درکار ہوں گے۔
سینیٹ میں حکومتی بینچز پر پاکستان پیپلز پارٹی کے 24، مسلم لیگ ن کے 19، بلوچستان عوامی پارٹی کے 4، ایم کیو ایم کے 3 ارکان ہیں۔ حکومتی بینچز پر 4 آزاد سینیٹرز بھی ہیں۔ ایوان بالا میں ان کی مجموعی تعداد 54 بنتی ہے، آئینی ترمیم کے لیے حکومت کو مزید 9 ووٹ درکار ہیں۔ تاہم ذرائع کا دعویٰ ہے کہ انہیں سینیٹ میں صرف 3 ووٹ درکار ہیں۔