آئینی ترمیم: اسپیکر قومی اسمبلی کا پرویز الٰہی سے رابطہ، پی ٹی آئی کو مذاکرات کیلئے کیا پیشکش کی؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)ملکی سیاست میں آئینی ترامیم کا معاملہ ایک اہم ترین مسئلہ بن چکا ہے، حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اس حوالے سے مصروف دکھائی دے رہے ہیں جبکہ حکومت بار بار یہ دعویٰ کررہی ہے کہ اس کے پاس آئینی ترامیم کو منظور کروانے کے لیے مطلوبہ اکثریت موجود ہے مگر اس کے باوجود 15 ستمبر کو طے شدہ شیڈول کے باوجود یہ کام نہیں ہوسکا ہے۔
اور اب دوبارہ آئینی ترامیم کی منظوری کے لیے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سر توڑ کوششیں کر رہی ہیں، ذرائع کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے تحریک انصاف سے بات چیت کے لیے تیار ہیں اور اس ضمن میں بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اس حوالے سے اسپیکر ایاز صادق کی سابق وزیر اعلی پنجاب پرویز الہی سے گفتگو بھی ہوئی ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ وہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور حکومتی کابینہ کے اراکین کو ساتھ بٹھا کر اس آئینی ترمیم پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں، پرویز الہی نے اسپیکر کو اس حوالے سے پی ٹی آئی سے مشاورت کے بعد جواب دینے کا کہا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی 53 آئینی ترمیموں کے حق میں نہیں ہیں دونوں جماعتوں کا موقف ہے کہ جو متنازعہ ترامیم ہیں ان پر اتفاق رائے نہ ہو تو اچھا ہے، مگر وفاقی آئینی عدالت کے قیام سمیت بلوچستان میں اراکین کی تعداد بڑھانے سے متعلق آئینی ترامیم منظور کروائی جائیں۔
ذرائع کے مطابق اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سمجھتے ہیں کہ حکومت نے بغیر سوچے سمجھے قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس بلا لیا جس سے حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد اب آئینی ترمیم پاس کروانے کے حوالے سے وہ اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ اسپیکر قومی اسمبلی چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف وفاقی آئینی عدالت کی ترمیم پر ہی مان جائے اور جو ان کے تحفظات ہیں وہ دور کر دیے جائیں تاکہ یہ آئینی ترمیم متفقہ طور پر منظور ہو، دوسری جانب مولانا فضل الرحمن کو قائل کرنے کا ٹاسک پیپلزپارٹی کو سونپا گیا ہے۔
پیپلزپارٹی بھی مولانا سے صرف وفاقی آئینی عدالتی پر ووٹ کی خواہاں؟
ذرائع نے بتایا کہ آئینی ترامیم منطور کروانے کی پہلی کوشش ناکام ہونے کے بعد بلاول بھٹو کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات میں بلاول بھٹو نے مولانا فضل الرحمن کو صرف وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے حوالے سے ووٹ دینے کی دراخوست کی ہے، باقی متنازعہ ترامیم پر خود پیپلزپارٹی بھی اب بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کا قیام ان کے چارٹر میں شامل ہے اس لیے وہ اب اس محاذ پر سیاسی قیادت کر رہی ہے تاکہ تمام جماعتیں اس ایک آئینی ترمیم پر رضامند ہوجائیں۔