اسلام آباد

کوٹا سسٹم میں توسیع پر ایم کیو ایم کی مخالفت کیا رنگ لائے گی؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)ایم کیو ایم پاکستان کسی وقت ’کنگ میکر پارٹی‘ سمجھی جاتی تھی کیوںکہ حکومت کی تشکیل و تحریف میں اس جماعت کا اہم کردار رہا ہے، اس وقت ایم کیو ایم 22 اراکینِ قومی اسمبلی اور 3 سینیٹرز رکھنے والی جماعت ہے، یہ تعداد ماضی کے مقابلے میں زیادہ بہتر سیاسی پوزیشن کی غماز ہے۔
تاہم موجودہ وفاقی حکومت کا حصہ ہونے کے باوجود اہمیت نہ ملنے کا شکوہ کرنے والی ایم کیو ایم کو آئینی ترامیم کے معاملے میں بہتر ’ڈیل‘ پر بات چیت میں ناکامی کے حوالے سے اپنے ووٹرز کے غصے اور مایوسی کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے، سوال یہ ہے کہ کوٹا سسٹم کیخلاف دو ٹوک موقف رکھنے والی ایم کیو ایم کیا ابھی تک ’کنگ میکر‘ ہے یا اس مخلوط حکومت میں اس کی حیثیت صرف ایک پیادے کی ہے؟
ایم کیو ایم کا مسلم لیگ ن سے احترام کے ساتھ شکوہ
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سینئر مرکزی رہنما مصطفیٰ کمال کہتے ہیں کہ ہم نے مسلم لیگ ن کے ساتھ حکومت سازی کے لیے دوسری جماعتوں کی طرح کسی قسم کی کوئی سودے بازی نہیں کی بلکہ انتخابات کے انعقاد سے 4 ماہ قبل خود مسلم لیگ ن کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کیا۔
’ہمارا ہمیشہ سے ایک اصولی مطالبہ رہا ہے کہ ملک میں اختیارات اور وسائل کی نچلی سطح تک منصفانہ منتقلی کو یقینی بنایا جائے، آج تک ہم نے وفاق میں اپنے اتحادی لیگی رہنماؤں سے بند کمروں کی ملاقاتوں میں یہی گزارشات رکھی ہیں تاکہ پاکستان کے عوام اور بالخصوص شہری سندھ کے عوام کی بہتری کے لیے کوئی کام کر سکیں۔‘
مصطفیٰ کمال کے مطابق وفاقی حکومت نے ان کی گزارشات پر ہمیشہ رضامندی کا اظہار کیا اور شہری سندھ کے حوالے سے ہمارے موقف کی ہمیشہ تائید کی ہے، لیکن عملاً اقدامات کہیں نظر نہیں آرہے ہیں۔ ’ہم انتہائی احترام سے شکوہ کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے کم کہے کو زیادہ سمجھا جائے اور مسلم لیگ ن ایم کیو ایم کے حوالے سے اپنے رویے پر نظر ثانی کرے۔‘
کوٹا سسٹم: ایم کیو ایم کس پر لعنت بھیجے گی؟
ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن خیال رکھے کہ ہم بھی ایک سیاسی جماعت ہیں، جسے پہلے ہی اپنے لوگوں کو جواب دینا مشکل ہو رہا ہے اوپر سے ایسے وقت میں کوٹا سسٹم میں 20 سالہ توسیع کا بل ہمیں مزید سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ جب ہم اپنے لوگوں کے مسائل حل نہیں کر پارہے ہیں تو پھر اسمبلی کی رکنیت رکھنے کا کیا فائدہ ہے۔
’اگر ہمارے اسمبلیوں میں ہوتے ہوئے کوٹا سسٹم میں 20 سال کی توسیع کردی جائے تو لعنت بھیجتے ہیں ہم ایسی رکنیت پر، جس کوٹا سسٹم نے سالوں تک شہری سندھ کے عوام کا تعلیمی اور معاشی استحصال کیا ہے ہم اس میں توسیع کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔‘
مسلم لیگ ن کو مخاطب کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال کا موقف تھا کہ ان کی جماعت کا پیپلز پارٹی یا کسی دوسری جماعت سے کوئی تعلق نہیں، ایم کیو ایم مسلم لیگ ن کی اتحادی جماعت ہے اور ہمیں درپیش مسائل کا حل ان کی ہی ذمہ داری ہے۔
ماضی کی طرح ایک بار پھر ایم کیو ایم کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب حکومت آئینی ترمیم لانا چاہتی ہے اور ایم کیو ایم کو ایسے موقعوں پر فائدہ لینا خوب آتا ہے۔
ایم کیو ایم: میکر یا بریکر؟
سینئر صحافی ارمان صابر کاُکہنا ہے کہ جنرل مشرف کے دور حکومت کا ایم کیو ایم 2002 میں حصہ رہی لیکن 2008 کے عام اتنخابات کے بعد ایم کیو ایم نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کیا، جس پر ایم کیو ایم کے اندر سرگوشیاں ہوتی رہیں لیکن سابق صوبائی وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور پاکستان تحریک انصاف نے کھل کر پہلی بار ایم کیو ایم کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
ارمان صابر کے مطابق اس کے بعد ہم نے ایم کیو ایم کو پاکستان تحریک انصاف کا اتحادی پایا لیکن آخر میں ایم کیو ایم کے ہی ووٹ تھے جس سے عمران خان کو گھر جانا پڑا اب مسلم لیگ ن کا دور ہے اور ایک بار ہھر ایم کیو ایم اپنا مطالبہ اور شکوہ سامنے لے آئی ہے۔
ایم کیو ایم کی دھمکی کارگر ہوگی؟
’ایم کیو ایم نے صوبہ سندھ میں اور وفاق میں ہمیشہ اچھی ڈیل کی ہیں اور ہر دور حکومت میں شامل رہی ہے، پاکستان کی سیاست میں انہیں اہمیت تب ملتی ہے جب کوئی ترمیم لانی ہو، حکومت لانی ہو یا گرانی ہو اور یہی وقت ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم اپنے مطالبات منوا سکے۔‘
کوٹا سسٹم میں توسیع کے معاملے پر صحافی ارمان صابر سمجھتے ہیں کہ دھمکی وہ دیتا ہے جس کی دھمکی کارگر ثابت ہو سکے لیکن یہاں ایسا لگتا ہے یہ دھمکی رائیگاں جائے گی۔ ’اگر ایم کیو ایم حکومت سے الگ بھی ہو جاتی ہے تو حکومت پر تو کوئی فرق نہیں پڑے گا، ہاں اگر ائینی ترمیم منظور کرانی ہے تو ایم کیو ایم کے اراکین کی ضرورت پڑے گی۔‘
ارمان صابر کے مطابق کوٹا سسٹم کو مزید 20 سالہ توسیع نہ دینے کا ایم کیو ایم کا مطالبہ تسلیم کیا جائے گا یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا، اگر گنتی پوری ہو گئی تو ان کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ’ان کے پاس بس یہی ایک موقع ہے جس میں اپنا مطالبہ تسلیم کرا سکتے ہیں۔‘

متعلقہ خبریں