بلوچستان اسمبلی بلڈنگ کی تعمیر نو ہائیکورٹ میں چیلنج
کوئٹہ (قدرت روزنامہ)بلوچستان اسمبلی کی عمارت کو گراکر اسے 5 ارب روپے کی لاگت سے دوبارہ تعمیر کا منصوبہ بلوچستان ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ بار کے سابق صدر امان اللہ کنرانی ایڈووکیٹ کی جانب سے صوبائی اسمبلی کی عمارت کو گرانے کے خلاف دائر کی گئی آئینی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ اسمبلی کی عمارت بلوچستان کی ثقافت کا آئینہ دار ہے، اسمبلی کی عمارت گراکر نئی عمارت کے لیے 5 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کرنا آئین کے آرٹیکل 28 کے منافی ہے۔
درخواست گزار کا مؤقف ہے کہ یہ عمل بلوچ و پشتون قومیتوں کی شناخت مٹانے کے مترادف ہے، نیز اسمبلی کی عمارت کو گراکر 5ارب روپے خرچ کرنا قومی وسائل کا ضیاع ہے اور یہ عمل سیاسی عداوت و بدنیتی پر مبنی ہے۔
درخواست میں وزیراعلی ، اسپیکر و ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبہ بندی و ترقیات بلوچستان کو فریق بنایا گیا ہے، درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ صوبائی حکومت کو اسمبلی کی بلڈنگ گرانے سے روکا جائے۔
یاد رہے کہ حکومت بلوچستان کی جانب سے صوبائی اسمبلی کی عمارت کو مسمار کر کے دوبارہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے لیے 5 ارب روپے سے زیادہ کی رقم مختص کی گئی ہے، فیصلے کے تحت اسمبلی کی عمارت کو گرا کر دوبارہ نئی طرز پر تعمیر کیا جائے گا جو تمام جدید سہولیات سے آراستہ ہوگی۔
اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق خان نے بتایا کہ ایوان میں ممبران کے بیٹھنے کے لیے مناسب جگہ موجود نہیں، جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر چیز ناکارہ ہوتی جارہی ہے۔
حکومت کی جانب سے اسمبلی کی عمارت کو مسمار کرکے دوبارہ تعمیر کرنے کے فیصلے کو عوام میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
عوام کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کے ارکان اسمبلی نے عمارت کی تزئین و آرائش کا مشورہ دیا ہے، جبکہ تاریخی ورثے کی حامل اس عمارت کو مسمار کرنا نامناسب عمل ہوگا۔
عوامی حلقوں کا موقف ہے کہ حکومت کو 5 ارب روپے سے زیادہ کی رقم اسمبلی عمارت کی تعمیر میں نہیں بلکہ عوام کے مسائل کے حل کے لیے خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ ’ایک جانب جہاں صوبے میں تعلیم، صحت، بے روزگاری سمیت کئی مسائل کا سامنا ہے، ایسے میں اسمبلی عمارت کی دوبارہ تعمیر حکومت کی غیرسنجیدگی کو ظاہر کرتی ہے، ایسا اقدام صرف رقم کا ضیاع ہوگا‘۔
بلوچستان اسمبلی کی تاریخی اہمیت
بلوچستان اسمبلی کی موجودہ عمارت ایک خیمے کی طرز پر تعمیر کی گئی ہے جسے بلوچی زبان میں گدان کہا جاتا ہے۔ 12 ایکڑ کے رقبے پر پھیلی بلوچستان اسمبلی کی اس عمارت کا سنگ بنیاد 1973 میں اس وقت کے گورنر نواب محمد اکبر خان بگٹی نے رکھا تھا۔
15 سال کی طویل مدت کے بعد یہ عمارت مکمل ہوئی اور اس اسمبلی بلڈنگ کا افتتاح 28 اپریل 1987 کو اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے کیا۔
بات کی جائے اگر ایوان میں گنجائش کی تو اسمبلی احاطے میں 72 اراکین کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جبکہ 25 نشستیں سرکاری حکام اور 25 نشستیں مہمانوں کے لیے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ عام لوگوں کے بیٹھنے کے لیے وزیٹر گیلری میں 168 جبکہ میڈیا کے لیے 25 نشستیں موجود ہیں، بلوچستان اسمبلی کا ایوان 65 اراکین پر مشتمل ہے۔