اسلام آباد

محسود سے پشتون تحفظ موومنٹ تک کا سفر، پابندی کا سامنا کیوں؟


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)وفاقی حکومت نے پشتوں تحفظ موومنٹ یعنی پی ٹی ایم پر ملک دشمن بیانیہ اور انتشار پھیلانے کو جواز بنا کر ایک ایسے وقت میں پابندی عائد کر دی جب پی ٹی ایم قومی جرگہ کے نام سے عوامی عدالت منعقد کرنے کا اہتمام کررہی تھی۔
وزارت داخلہ کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق پی ٹی ایم کے خلاف موجود اہم شواہد سے پتا چلتا ہے کہ یہ تحریک ملک مخالف بیانیہ اور انتشار پھیلانے میں ملوث ہے، وفاقی حکومت کی جانب سے پابندی کے فیصلے کے بعد خیبر پختونخوا حکومت نے پشاور اور ضلع خیبر کے سنگم پر پی ٹی ایم کے کیمپ اور جرگے کی جگہ موجود افراد پر لاٹھی چارج کیا۔
تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی جانب سے اس پیش رفت پر کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے تاہم ایک صوبائی وزیر نے پی ٹی ایم کی جانب سے بلائے گئے جرگے میں پھر پور شرکت کا اعلان کیا ہے۔
جرگہ ہر صورت ہو گا، کالعدم پی ٹی ایم
وفاقی حکومت کے پابندی کے فیصلے کے بعد کالعدم پی ٹی ایم کی کور کمیٹی کے اجلاس میں حکومت کی جانب سے عائد کردہ پابندی اور جرگے کے حوالے سے تیاریوں کا جائزہ لیا گیا، کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ پابندی کے باجود بھی قومی جرگہ ہر صورت منعقد کیا جائے گا اور اس ضمن میں تمام انتظامات مکمل کرنے کی ہدایت بھی کی گئی۔
پی ٹی ایم کے ایک سینئر رکن نے بتایا کہ پابندی کا ان کی تحریک پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، ان کا موقف تھا کہ اس سے پہلے بھی پی ٹی ایم پر غیر اعلانیہ پابندی عائد تھی۔ ’ہمارے اوپر کب پابندی نہیں تھی ممبرز اور سپورٹرز کو شہید کیا گیا۔ جیل میں قید، مقدمات اور دیگر حربے استعمال کیے گئے لیکن ہم پیچھے نہیں ہٹے۔‘
انہوں نے بتایا کہ کور کمیٹی نے ہر صورت جرگہ کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے جس کے انتظامات کیے جارہے ہیں۔
پی ٹی ایم پر پابندی کی وجوہات کیا ہیں؟
وفاقی حکومت نے ملک میں انتشار پھیلانے اور ریاست مخالف بناننے کو جواز بنا کر پی ٹی ایم پر پابندی کا اعلامیہ جاری کیا ہے۔ جسے اب آزادانہ طور پر جلسے، جلوس، احتجاج، جرگہ یا عوامی اجتماع کرنے کی اجازت نہیں ہو گی، جس پر نہ صرف اس کے خلاف کارروائی ہو گی بلکہ اس میں تعاون یا سپورٹ کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
پشاور میں نجی نیوز چینل کے بیورو چیف اور سینئیر صحافی علی اکبر خان پی ٹی ایم کے جرگے کے انعقاد کے حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹس پر پریشان ہیں۔ ’آپ جس طرح چاہیں احتجاج کریں، نعرے لگائیں مگر ریاست مخالف بیانیہ اور ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی اجازت میرے خیال میں ہرگز نہیں ہو گی۔‘
علی اکبر خان کے مطابق کالعدم پی ٹی ایم کے مطالبات طالبان کے مطالبات سے میل کھاتے ہیں، پی ٹی ایم کی مقبولیت کی بڑی وجہ بھی ان کے نعرے اور ریاست مخالف بیانیہ ہے، جسے اب تک ریاست برداشت کرتی آرہی تھی۔ ’لیکن اب قومی جرگے کے نام پر عوام کو بلا کر ریاست مخالف سرگرمی کرنا ہر گز درست نہیں ہے، جس پر حکومت بھی حرکت میں آئی ہے۔‘
علی اکبر کے نزدیک پی ٹی ایم کا نہ کوئی مستقبل تھا اور نہ ہے کیونکہ یہ تحریک قبائلی علاقوں سے شروع ہوئی تھی اور فوج مخالف نعرے اور بیانیہ پر چلنے کی کوشش کر رہی تھی، اور قبائل کبھی فوج مخالف نہیں رہے بلکہ ہمیشہ فوج کو سپورٹ کرتے آئے ہیں اور انہی کے ذریعے اپنے مسائل حل کراتے ہیں۔
’جرگے کے نام پر عدالت لگانا کہاں کا قانون ہے اور پاکستان میں عدالتیں ہیں، یہ تو ریاست اور عدلیہ کو کھلم کھلا چیلنچ کرنے والی بات ہو گئی۔‘
پشاور کے سینئر صحافی فدا عدیل کا کہنا ہے کہ پی ٹی ایم بیانیہ کا اب حکومت کو خیال آیا ہے۔ ‘پی ٹی ایم آج تو نہیں وجود میں آئی ہے۔ یہ تو پہلے محسود تحفظ موومنٹ تھی جو نقیب اللہ محسود کے قتل کے بعد پشتوں تحفظ موومنٹ میں بدل گئی اور تب سے مرکزی سیاسی دھارے میں سرگرم ہے۔‘
فدا عدیل کے مطابق حکومت قومی جرگے سے خوفزدہ نظر آرہی ہے اور اسی وجہ سے پی ٹی ایم پر پابندی عائد کی گئی ہے، جرگے میں باہر سے یا کوئی غیر ملکی شریک نہیں ہورہے بلکہ یہی سیاسی لوگ ہیں جو آئیں گے۔’
کیا پابندی سے جرگہ متاثر ہوگا؟
کالعدم پی ٹی ایم کے مطابق پابندی سے ان کے 11 اکتوبر سے ہونے والے تین روزہ جرگے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور جرگے میں اب پہلے سے بھی زیادہ لوگ آئیں گے، تاہم سینئیر صحافی علی اکبر کی سوچ مختلف ہے، ان کے مطابق پابندی کے بعد اب جرگے کا انعقاد مشکل ہو گا۔ ’اب ان کے خلاف کارروائی ہو گی، جو ان کو سپورٹ کرے گا ان کے خلاف بھی اور جرگے کے دوران بھی۔‘
سینئر صحافی فدا عدیل کا خیال ہے کہ پابندوں سے کرئی فرق نہیں پڑے گا۔ ‘میرے نزدیک اب لوگوں کی ہمدردیاں منظور پشتین کے ساتھ زیادہ ہوں گی اور لوگوں کے زیادہ بڑی تعداد میں جرگے میں شرکت کے امکانات زیادہ ہیں۔
جرگے میں ہوگا کیا؟
کالعدم پی ٹی ایم کے مطابق ان کا 3 روزہ قومی جرگہ پشاور اور خیبر کے سنگم پر واقع ریگی میں ہو رہا ہے جو 11 اکتوبر سے شروع ہو گا جس میں شرکت کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو بھی دعوت دی گئی ہے۔ پی ٹی ایم کے مطابق جرگے میں خیبر پختونخوا اور خصوصاً قبائلی علاقوں میں روا ناانصافی، امن و امان، قدرتی وسائل پر بات چیت کے بعد متفقہ فیصلہ کیا جائے گا۔
جرگے کے پہلے روز ویڈیوز کے ذریعے بریفنگ دی جائے گی، دوسرے روز قائدین خطاب کریں گے جبکہ تیسرے اور آخری روز متفقہ طور درپیش معاملات پر لائحہ عمل کو حتمی شکل دی جائے گی۔

متعلقہ خبریں