ہم معافی مانگتے ہیں آپ ان گاڑیوں سے صفائی کا کام نہ لیں ۔۔ جانیں نواب آف بہاولپور نے دنیا کی کون سی مہنگی ترین گاڑی سے شہر کی صفائی کا کام لی
نواب بہاولپور صادق خان نے شو روم کے اندر جا کر اس کی قیمت اور دیگر خصوصیات کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا . تو سیلز مین نے سمجھا کہ دیگر لوگوں کی طرح یہ بھی انکا وقت ضائع کر رہے ہیں تو اس نے ان سے کہا کہ آپ جائیں آپ کیلئے نہیں یہ، اس بات کو نواب صاحب نے اپنی بے عزتی سمجھا اور اس بات کے بعد نواب صاحب لندن میں اپنی رہائش گاہ واپس آئے اورحکم دیا کہ رولز روئس شو روم میں فون کیا جائے کہ ہم انکی تمام کاریں خریدنا چاہتے ہیں جس پر وہ خوش ہوئے اور نواب صاحب کے استقبال کیلئے ریڈ کارپٹ بچھایا گیا . مزید یہ کہ جب نواب صاحب انکے شوروم اپنی پوری فورس کے ساتھ شاہی لباس میں شوروم میں داخل ہوئے اور وہاں اس وقت صرف 6 کاریں کھڑی تھیں جسے انہوں نے فوراََ خرید لیا اور حکم دیا کہ انہیں پاکستان بھجنے کا انتظام کیا جائے، کچھ دنوں میں نواب صاحب اور کاریں پاکستان آ گئیں تو نواب صاحب نے اپنی ریاست کے میونسپل کارپوریشن کو حکم جاری کیا کہ ان مہنگی کاروں سے شہر کی صفائی اور کچرا اٹھانے کا کام لیا جائے جبکہ یہ واقعہ سن 1969 کا ہے . ریاست کے نواب کا حکم تھا تو کیسے نہ مانتے تو ان گاڑیوں کے آگے جھاڑو لگا کر صفائی شروع کر دی گئی تو یہ خبر پوری دنیا میں جنگل کی آگ طرح پھیل گئی کہ ایک مہنگی کار وہاں کچرا اٹھانے کے کام آتی ہے تو انکی کاریں نہ تو خریدتا تھا اور انکے برانڈ کی بے عزتی بھی بہت ہوئی جس پر نواب صاحب کو ٹیلی گرام لکھ کر معافی مانگی گئی . اور کہا گیا کہ ہم نے سارے معاملے کی تحقیقات کروائی ہیں تو ہمیں اصل معاملہ پتا چل گیا ہے جس پر ہم آپ نے معذرت خواہ ہیں کہ ہمارا اسٹاف آپ کو پہچان نہیں سکا . برائے مہربانی آپ اب ان گاڑیوں سے صفائی کا کام کروانا بند کر دیں . یہی نہیں بلکہ مزید 6 رولز روئس کاریں نواب صادق خان عباسی کو بطور تحفہ بھجوائیں گئیں جسے نواب صاحب نے قائداعظم کو اور دیگر لوگوں کو گفٹ کر دیں . خیال رہے کہ جب پاکستان بنا تو ایک محتاط اندازے کے مطابق نواب آف بہاولپور صادق خان عباسی نے 7 کروڑ روپے ملکی خزانے میں جمع کروائے اور ایک مرتبہ تو ایک مہینے کی تمام سرکاری ملازموں کی تنخواہ بھی ریاست بہاولپور کے خزانے سے دی گئی . نواب صادق خان عباسی قائداعظم کے بہت قریبی دوست بھی تھے . واضح رہے کہ سن 1955 میں ریاست بہاولپور کو پاکستان میں ضم کر دیا گیا لیکن انہیں وہی پروٹوکول ملتا رہا جبکہ 1955 سے پہلے یہ ریاست پاکستان میں شامل تو ہو گئی تھی مگر ضم نہیں ہوئی تھی اور یہ ریاست اپنے تمام امور خود سر انجام دیتی تھی . . .