آئینی ترمیم سے سیاسی رہنماؤں کو کیا فائدہ ہوگا؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)حکمراں اتحاد کی مسلسل کوششوں کے بعد بالآخر 26ویں آئینی ترمیم منظور ہو چکی ہے۔ حکومت کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ آئینی ترمیم کوئی نئی بات نہیں بلکہ سنہ 2006 میں تمام سیاسی جماعتوں کے دستخط کردہ میثاق جمہوریت ہی کا ایک جزو ہے۔
عمومی رائے یہ ہے کہ اس آئینی ترمیم کے ذریعے حکومت نے اپنے گرد ایک حفاظتی حصار باندھ لیا ہے اور عدلیہ کو پارلیمان یا حکومتی معاملات میں دخل اندازی سے کافی حد تک روک دیا گیا ہے۔
مختلف تجزیہ کاروں سے گفتگو کرکے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس 26ویں ائینی ترمیم سے بڑے سیاسی رہنماؤں میاں محمد نواز شریف، آصف علی زرداری، عمران خان، مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو اور دیگر کو کیا فائدہ حاصل ہوگا؟
سینیئر تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم سے اجتماعی طور پر تمام سیاسی رہنماؤں کو ایک تحفظ کا احساس ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ جو سیاسی معاملات میں بہت زیادہ آگے بڑھ رہی تھی اور پارلیمنٹ کے وجود اور اس کے اختیارات کو بھی دباؤ کا سامنا تھا اب اس ترمیم کے ذریعے اس کے گرد ایک حفاظتی دیوار کھڑی کر دی گئی ہے اور پارلیمنٹ پر اب حملہ نہیں ہو سکے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ عرفان صدیقی نے بھی کہا ہے کہ جو دباؤ پارلیمنٹ پر عدلیہ کی طرف سے آتا تھا اس کا سدباب کر دیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عدلیہ نے گزشتہ کچھ عرصے سے آئین کی جو تشریح کی اس کی وجہ سے حکومت شدید دباؤ کا سامنا رہا لیکن اس ترمیم سے اب ان کو تحفظ کا احساس ہو گیا ہے اور اب وہ کافی حد تک سے اپنے کام یکسوئی کے ساتھ جاری رکھ سکیں گے۔
مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ حکومت ابتدائی طور پر جو ترامیم لانا چاہ رہی تھی اس میں فوجی عدالتیں بھی موجود تھیں اور عمران خان کے مقدمات بھی اس عدالت میں جا سکتے تھے تو اب عمران خان کو ایک فائدہ ہوگا کہ جو مجوزہ مسودے میں تبدیلی کی گئی ہے اور مولانا فضل الرحمان نے جو مؤقف اختیار کیا اس کی وجہ سے عمران خان کو بھی ریلیف ملے گا اس لیے پی ٹی آئی نے مولانا کے ساتھ اظہار ناراضی نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ اچھے تعلقات کو جاری رکھا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے دوستوں کو اب ایک تحفظ کا احساس ہوگا کہ ان کے معاملات سول عدالتوں میں چلیں گے فوجی عدالتوں میں منتقل نہیں ہو سکیں گے۔
سینیئر تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے نواز شریف، آصف زرداری اور شہباز شریف کو تحفظ حاصل ہو گیا ہے اور کافی حد تک ملک میں سیاسی استحکام آ گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسمبلی میں جو خواجہ آصف نے 8 ججز کے حوالے سے اظہار خیال کیا اس سے لگتا ہے کہ حکومت کو عدلیہ سے کوئی سیریس خطرہ لاحق تھا اور اب حکومت کو سیاسی استحکام حاصل ہو گیا ہے تو وہ اب معاشی استحکام کی طرف توجہ دے سکتی ہے۔
انصار عباسی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کو اس آئینی ترمیم کے ذریعے یہ فائدہ ہوا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کی تمام جماعتیں ان کے کردار کو سراہا رہی ہیں اور اس کے علاوہ جو کوئی قابل اعتراض شقیں ترمیم میں شامل تھیں مولانا فضل الرحمان نے مذاکرات کے ذریعے ان کو بھی ختم کرا دیا ہے اور اب جو ترامیم کی گئی ہیں وہ بھی سب کو قابل قبول ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ سود کے خاتمے کی ترمیم شامل کر کے مولانا فضل الرحمن کو سیاسی فائدہ بھی حاصل ہو گا۔
انصار عباسی نے کہا کہ آئینی ترمیم کے ذریعے عمران خان کو نقصان ہی ہوا ہے کیوں کہ اس کے نتیجے میں ملک میں سیاسی استحکام آئے گا جبکہ عمران خان چاہتے ہیں کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہو تاکہ لوگ حکومت کے خلاف بغاوت کریں اور ان کو پھر سے حکومت کرنے کا موقع ملے۔
سینیئر تجزیہ کار حماد حسن نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس آئینی ترمیم کے ذریعے شخصیات کی بجائے اداروں کو زیادہ فائدہ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اس سے وزیراعظم مزید مضبوط ہوں گے اور پارلیمنٹ کی بالادستی میں اضافہ ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا عدالتی نظام بہت کمزور رہا ہے اس لیے پارلیمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میں تبدیلی اور اصلاحات لائے۔
حماد حسن نے کہا کہ ججز نے اپنے آپ کو مکمل تحفظ دیا ہوا ہے اور ان پر یا ان کے فیصلوں پر تنقید نہیں کی جاسکتی اور کوئی بات کرتا بھی ہے تو اگلے ہی روز اسے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑتا ہے اور توہین عدالت کے کیس کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک آمرانہ رویہ تھا جسے تبدیل کرنے کے لیے پارلیمنٹ سرگرم ہے اور آگے بڑھ رہی ہے۔