پی آئی اے نجکاری، کیا صوبے قومی ایئرلائن خرید سکتے ہیں؟
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)وفاقی حکومت نے مشکل معاشی حالات کے باعث معیشت پر بوجھ بننے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا تھا، خزانے پر بڑا بوجھ بننے والی قومی ایئرلائن پی آئی اے کی نجکاری کی باتیں 2014 سے کی جا رہی ہیں تاہم اب تک یہ عمل مکمل نہیں ہوسکا۔
رواں سال 31 اکتوبر کو پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بولی کے عمل کا انعقاد کیا گیا، تاہم دلچسپی ظاہر کرنے والی 6 کمپنیوں میں سے صرف ایک کمپنی نے ہی بولی دی، حکومت نے پی آئی اے کی مالیت 85 ارب رکھی تاہم خریدنے والی کمپنی نے صرف 10 ارب روپے کی بولی لگائی، اس طرح بولی کا عمل ایک مرتبہ پھر سے مؤخر ہوگیا ہے۔
نجی کمپنیوں کی جانب سے عدم دلچسپی اور کم بولی لگانے کے بعد پہلے خیبرپختونخوا حکومت اور بعد ازاں نواز شریف کے مطابق پنجاب حکومت نے بھی پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
تاہم سینیئر وزیر پنجاب حکومت مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ اس خبر میں کوئی حقیقت نہیں کہ پنجاب حکومت پی آئی اے کو خرید رہی ہے۔
وفاقی وزیر نجکاری عبد العلیم خان نے گزشتہ روز واضح کیاکہ ہم پی آئی اے کو کوڑیوں کے بھاؤ فروخت نہیں کرسکتے، ہماری ذمے داری ہے کہ ہم پی آئی اے کو فروخت نہیں ٹھیک کریں، میری تو خواہش ہے کہ صوبے مل کر پی آئی اے کے شیئرز خریدیں اور اس کو منافع بخش ادارہ بنانے کے لیے صوبے مل کر کام کریں۔
خیبرپختونخوا کے بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ نے وفاقی وزیر نجکاری عبدالعلیم خان کو خط لکھا ہے جس میں انہوں نے کہاکہ ہم پی آئی اے کی نیلامی میں حصہ لینے کے لیے تیار ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہاکہ ہم نجی کمپنی کے 10 ارب روپے کی بولی سے زیادہ قیمت پر پی آئی اے کو خرید لیں گے۔
مختلف تجزیہ کاروں سے گفتگو کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا پنجاب حکومت یا خیبرپختونخوا حکومت پی آئی اے خرید سکتی ہے؟ کیا اس میں کوئی آئینی رکاوٹ تو نہیں ہوگی؟
ماہر قانون عمران شفیق ایڈووکیٹ نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ آئین پاکستان میں کسی ایک صوبائی حکومت کا دوسری حکومت یا وفاقی حکومت سے کسی بھی قسم کی خریداری کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے، حکومتیں پہلے بھی دوسری حکومتوں سے اشیائے خورونوش، گندم، چاول، چینی اور دیگر اشیا خریدتی رہی ہیں، اب پی آئی اے خریدنے میں بھی کوئی آئینی مسئلہ تو نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ پی آئی اے کی خریداری کا فیصلہ اتنا آسان نہیں ہوگا، ایسا ادارہ جو اربوں روپے کا مقروض ہے اور اسے چلانے کے لیے بھی مزید کئی سو ارب روپے چاہیے ہوں، کسی صوبے کے لیے ایسا کرنا انتہائی مشکل ہوگا، یہی وجہ ہے کہ پہلے نواز شریف نے پی آئی اے کو پنجاب حکومت کی جانب سے خریدنے کی بات کی تو کچھ وقت کے بعد مریم اورنگزیب نے اس خبر کی تردید کردی۔
گفتگو کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور پی آئی اے کی نجکاری پر گہری نظر رکھنے والے شعیب نظامی نے کہاکہ پی آئی اے کوئی بھی صوبہ خرید سکتا ہے، اس وقت صوبوں کا بجٹ سرپلس جا رہا ہے اور ان کے پاس 100 ارب روپے سے زیادہ رقم موجود ہے، اس رقم میں سے اگر 30 یا 40 ارب روپے سے پی آئی اے کو خرید لیا جائے تو اس سے صوبوں کو زیادہ فرق نہیں پڑے گا لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ صوبے پی آئی اے کو درست راہ پر چلانے کے لیے کوششیں کریں۔
شعیب نظامی نے کہاکہ اس وقت تک تو جو پی آئی اے کی انتظامیہ ہے اس کی کارکردگی بالکل صفر ہے، 2 جون کو اس بات کا فیصلہ ہوا تھا کہ پی آئی اے کے تمام پائلٹس کی ڈگری جعلی ہونے کی بات جھوٹ تھی، تاہم اب اکتوبر آگیا ہے لیکن یورپ کا قیمتی روٹ بحال نہیں ہوسکا، پی آئی اے کے روٹس بحال نہ ہونے کی وجہ سے ایئرلائن کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے، لیکن انتظامیہ کی جانب سے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔
شعیب نظامی نے کہاکہ یہ بھی ضروری ہے کہ جو بھی صوبہ پی آئی اے کو خریدے وہ اس کو ایک کمپنی کے طور پر چلائے، جو اثاثے نقصان میں ہیں یا باعث بوجھ ہیں ان کو فوری طور پر ختم کیا جائے اور ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے قومی ایئرلائن دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے، لیکن ہمارے ہاں حکومتوں میں اتنی قابلیت نہیں دیکھی جاتی۔
انہوں نے کہاکہ میرا نہیں خیال کہ اگر پی آئی اے وفاقی حکومت سے کسی صوبائی حکومت کے پاس آتی ہے تو اس میں کوئی بہت زیادہ تبدیلیاں ہو جائیں گی۔
پی آئی اے اور شعبہ ہوابازی کی رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی شکیل احمد نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ صوبوں کی جانب سے قومی ایئرلائن پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار نجی کمپنی بلیو ورلڈ سٹی کی 10 ارب کی بولی کے بعد سامنے آنا اس بات کی طرف اشارہ دیتا ہے کہ شاید حکومتیں پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کرکے کوئی سیاسی مفاد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ جہاں تک پی آئی اے کی نجکاری کی بات ہے تو جو ابھی گزشتہ ہفتے ہوا ہے اس کے بعد تو ایسا لگ رہا ہے کہ اب نجکاری میں کچھ تاخیر ہوگی اور حکومت کافی بہتر تیاری کے ساتھ آئے گی، اس وقت مستقبل قریب میں پی آئی اے کی نجکاری ہوتی نظر نہیں آرہی۔
شکیل احمد نے کہاکہ جہاں تک صوبائی حکومتوں کا پی آئی اے کی خریداری کے حوالے سے کوئی آئینی رکاوٹ کا سوال ہے تو ایسا کوئی معاملہ نہیں، صوبوں کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ وفاقی حکومت کے جانب سے نجکاری کیے جانے والے کسی بھی ادارے کو خرید سکتے ہیں۔
’کوئی صوبہ اگر پی آئی اے کو خریدتا ہے تو وہ نجکاری نہیں ہوگی‘
ماہر معیشت شہباز رانا نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ نجکاری کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو سرکاری ادارے حکومت کے زیر انتظام چل رہے ہوتے ہیں ان میں پرائیویٹ شعبوں کو شامل کیا جاتا ہے تاکہ ادارے کے انتظامی معاملات میں بہتری لائی جا سکے۔
انہوں نے کہاکہ حکومت وفاق کی ہو یا صوبے کی، وہ سرکاری ہی تصور کی جاتی ہے، پی آئی اے اگر کوئی صوبائی حکومت خرید بھی لیتی ہے تو وہ نجکاری نہیں کہلائے گی، 18ویں ترمیم کے بعد بھی جو وفاقی ادارے صوبوں کو منتقل ہوئے تو وہ بھی نجکاری تو نہیں تھی۔
شہباز رانا نے کہاکہ پی آئی اے کی نجکاری اس وقت تسلیم کی جائے گی جب اسے کوئی نجی ادارہ خریدے گا، اس کا انتظامی ڈھانچہ تبدیل ہوگا، تب جا کر اصل نجکاری کا عمل مکمل ہوگا۔