ڈیلی قدرت سپیشل

اپنا مارے گا

تحریر:حمیراعلی

ہمارے ہاں بچوں کے رشتے کرتے ہوئے اپنے خاندان کو ترجیح اس بنا پر دی جاتی ہے کہ اپنا مارے گا تو چھاوں میں پھینکےگا۔اگر اپنا اتنا ہی اچھا ہو تووہ مارے ہی کیوں؟؟؟؟ یہ محاورہ بھی غلط ثابت ہوا جب ڈسکہ میں ایک خالہ ساس نے اپنی بھانجی کو جو اس کی بہو بھی تھی اپنی بیٹیوں اور نواسے کے ساتھ مل کر اس قدر بے رحمی سے قتل کیا کہ کوئی پروفیشنل قاتل بھی شرما جائے۔وجہ قتل بڑی عام اور ہر گھر کی کہانی ہے۔بیٹے کی پسند کی شادی اور بیوی سے اچھا سلوک اس پر مستزاد اسے بیرون ملک ساتھ لے جانا ماں بہنوں سے ہضم نہیں ہوا۔اور نفرت اس قدر شدت اختیار کر گئی کہ انہوں نے اس لڑکی کے چھوٹے سے بچے کو بھلا کر پہلے اسے ذبح کیا پھر جرم کے شواہد چھپانے کے لیے اس کے ٹکڑے کیے۔اس کی شناخت مٹانے کے لیے اس کا سر چولہے ہر جلایا۔اسے تین بوریوں میں پیک کیا اور مختلف نالوں میں بہا دیا۔
اندازہ لگائیے کیسی دلیر اور سخت دل خواتین تھیں کہ یہ سب کچھ اپنے بچوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی گھر میں سر انجام دیا پھر گھر اور ہر چیز دھو دھلا کر آرام سے بیٹھ گئیں۔مگر بے گناہ کا قتل کبھی چھپ نہیں سکتا لہذا نواسے کی گواہی پر نانی اور ماں خالہ پکڑی گئیں۔اس سارے قصے میں قصوروار صرف اور صرف والدین ہیں۔آپ لوگ شاید حیران ہوں اور مجھے برا بھی کہیں کہ ان کی بیٹی قتل ہوئی اور میں انہیں ہی قصوروار ٹھہرا رہی ہوں کیوں؟ اس لیے کہ والدین کا کام ہوتا ہے تحقیق و چھان بین کے بعد بچوں کے رشتے کریں۔ہم اسلامی معاشرے میں تو رہتے نہیں کہ جہاں میاں بیوی اپنی الگ رہائش اختیار کر کے آرام سکون سے زندگی بسر کر سکیں۔ہمارا معاشرہ تو ہندوانہ طرز معاشرت رکھتا ہے جہاں بیوی نہیں سسرال کی نوکرانی لائی جاتی ہے۔اس لیے والدین کو دیکھنا چاہیے کہ سسرال کس قماش کی ہے وہ آپ کی بیٹی کو بہو بنانے پر راضی ہے بھی یا نہیں۔کیونکہ اگر سسرال راضی نہیں تو آپ اپنی بیٹی کو خود جہنم میں دھکیل رہے ہوتے ہیں۔شادی کےبعد جب وہ سسرال کی ذہنی جسمانی اذیتیں سہہ کر تھک جاتی ہے اور آپ کی آغوش میں پناہ چاہتی ہے تو آپ اسے صبر کا درس دے کر گزارا کرنے کا کہتے ہیں اور واپس درندوں کے غول کے حوالے کر دیتے ہیں کیونکہ آپ کے لیے طلاق سے اس کی موت بہتر ہوتی ہے۔آپ لوگوں کے طعنوں کا تو ڈر رکھتے ہیں مگر اللہ سے نہیں ڈرتے۔
صبر یہ نہیں کہ ظلم برداشت کرتے کرتے قتل ہو جائیں۔ظلم کے خلاف آواز اٹھانا اسے ختم کرنا ہم پر فرض ہے۔مگر ہم ظلم سہہ کر خود بھی ظالم بن جاتے ہیں۔جب ایسے والدین کی بچیاں اسی بہیمانہ طریقے سے قتل کر دی جاتی ہیں تو اندر سے وہ مطمئن ہوتے ہیں کہ چلو مسئلہ بھی ختم ہو گیا اور عزت پر بھی حرف نہیں آیا۔اگر وہ یہ نہیں چاہتے تھے تو کیوں نہ بیٹی کو طلاق دلوا کر اپنے پاس رکھ لیا؟ کیوں نہ اس کے سسرال سے اس پر تشدد کا حساب لیا؟ کیوں اسے ہر بار سسرال واپس بھیجا؟
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بچیاں زندہ رہیں تو ایسی جگہ ان کا رشتہ مت کیجئے جہاں سسرال راضی نہ ہو اور اگر کر ہی دیں تو نکاح نامے میں لکھوا لیجئے کہ وہ الگ رہیں گی اور سسرال سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہو گا۔اگر وہ شوہر سسرال کی شکایت کریں تو صبر کا درس نہ دیں ان کی تکلیف کا سدباب کریں جیسا کہ قرآن و سنت سکھاتا ہے۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے بیٹوں کی تربیت اس طرح کریں کہ انہیں ہر رشتے کو اس کے حقوق دینے اپنے فرائض سر انجام دینے اور عورت کی عزت کرنا سکھائیں ۔ورنہ آپ کی بچیاں یونہی قتل ہوتی رہیں گی۔

متعلقہ خبریں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *