سیاسی کمیٹی کا اجلاس،اسٹیبلشمنٹ کیساتھ مذاکرات ،یاسمین راشد کی رہائی ، پی ٹی آئی کا احتجاج منسوخ ہونے کا امکان
اسلام آباد(قدرت روزنامہ) پاکستان تحریک انصاف نے 24 نومبر کا احتجاج منسوخ کرنے پر غور شروع کر دیا۔اس حوالے سے پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی کا ایک اہم اجلاس ہوا جس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے پیش نظر احتجاجی مارچ منسوخ کرنے اور بشریٰ بی بی کے پیدا کردہ تنازعہ پرغور کیا گیا ۔
اجلاس میں شامل پی ٹی آئی کے کچھ رہنماعدالتی فیصلے کی روشنی میں 24 نومبر کے احتجاجی مارچ کی منسوخی کیلئے سرگرم عمل رہے ، ان کا مؤقف تھا کہ حکومت سے بات چیت کو آگے بڑھنے دینا چاہیے۔ ان رہنماوں میں علی محمد خان، بیرسٹر گوہر علی خان شامل ہیں جنہوں نے مذاکرات سے معاملات کو ڈیل کرنے کی تجویز دی ہے ۔
سیاسی کمیٹی اجلاس میں فیصلہ کیا کہ ہے کہ احتجاج کی کال ختم کرنے اور بات چیت آگے بڑھنے کی تجویز عمران خان کو پیش کی جائے تاکہ وہ اس پر کوئی فیصلہ کریں۔ سیاسی کمیٹی کی سفارش کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں کا وفد عمران خان سے ملاقات کیلئے اڈیالہ جیل گیا تاہم ان کی ملاقات نہ ہو سکی۔
بعد ازاں وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور نے احتجاجی مارچ کے معاملے پر بات چیت کیلئے پشاور میں پارٹی رہنماؤں کا اجلاس طلب کیا۔ دوسری جانب کچھ ارکان کا کہنا ہے کہ اس تناظر میں آج 23 نومبر کو پی ٹی آئی پنجاب کی اہم رہنما یاسمین راشد کی رہائی بھی متوقع ہے ۔ احتجاج ملتوی ہونے کے حوالے سے آج کا دن اہم ہے ۔ پی ٹی آئی رہنما اور علی امین گنڈا پور کے مشیر بیرسٹر سیف نے رابطہ کرنے پر کہا کہ اگرچہ وہ سیاسی کمیٹی کے رکن نہیں لیکن عدالتی فیصلے کو چیلنج کرنے کیلئے پارٹی میں بات چیت ہو رہی ہے۔
بشریٰ بی بی کے سعودی عرب سے متعلق ویڈیو بیان سے پیدا ہونے والے سنگین تنازع پر پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی کمیٹی کے بیشتر ارکان خوش نہیں تھے اور انہوں نے اس کی مخالفت میں بات کی تاہم وہ بشریٰ بی بی کے بیان کو کھل کر مسترد کرنے کا فیصلہ نہ کر سکے، کچھ رہنماؤں نے مشورہ دیا کہ پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ بشریٰ بی بی کے بیان سے فاصلہ اختیار کریں اور خاتون کو اپنا دفاع کرنے دینا چاہیے تاہم، اس بات کا فیصلہ بھی نہ ہو سکا۔
دوسری جانب اعلیٰ سطح پر پاکستان تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات جاری ہیں ، تاہم ابھی تک کوئی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہورہے کیونکہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ پر اعتبار نہیں اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ عمران خان پر اعتبار کررہی ہے جس کی وجہ سے ہڑتال اور افہام وتفہیم کا معاملہ تاحال ڈیڈلاک کا شکار ہے