جو ریاست عوام کو امن نہیں دے سکتی اسے حکمرانی کا حق نہیں ،محمود خان اچکزئی
پشتونخواءملی عوامی پارٹی کے چیئرمین و تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی پریس کانفرنس
کوئٹہ(قدرت روزنامہ)8فروری کے انتخابات کے نتائج تبدل کرکے عوامی مینڈیٹ چھیناگیا۔ محمود خان اچکزئی نے کہاہے کہ قومی اسمبلی میں آئین کی دھجیاں اڑائی گئیں۔بنیادی حقوق کو دوندھا گیاہے۔ان حالات میں جو حکمرانی ہورہی ہے،اس میں ناقابل بیان کرپشن ہورہی ہے۔
ایک ایک ووٹ ستر کروڑ روپے میں خریدا گیا۔ پاکستان بحران میں ہے،پرامن احتجاج کر روکا گیاہے۔کے پی کے بعد پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کواکثریت حاصل تھی۔پرامن احتجاج کرنے والے ہزاروں کارکنوں کو ڈی چوک پر گولیوں کا نشانہ بنایاگیا۔
پی ٹی ٹی آئی کے لوگوں کو سروں پر گولیاں ماری گئیں ۔آئین کی حکمرانی کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔ملک کی داخلہ وخارجی پالیسیاں آزاد ہونی چاہیں ۔ہر ادارہ اپنے دائرے میں رہ کر کام کرے تو ملک بحران سے نکل سکتاہے۔
اسلام کے دعویدار ہیں مگر لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے۔راڑاشیم اور ہرنائی میں معصوم لوگوں کو قتل گیا مگر کوئی گرفتاری نہیں ۔جوریاست عوام کو امن نہیں دے سکتی اسے حکمرانی کا حق نہیں۔ یہ دونمبر حکومت ہے جس کو نہیں مانتے ۔مطالبہ ہے کہ ڈی چوک پر قتل ہونے والوں کا مقدمہ وزیراعظم ،وفاقی وزیر داخلہ اور آ ئی جی پولیس کے خلاف درج کیاجائے۔
پشتونخواءملی عوامی پارٹی کے چیئرمین و تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ نے کہاکہ دنیاکی جمہوری ممالک ہمارا ساتھ دیں۔حکومت کو آئیں کے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔بانی پی ٹی آئی کو ضمانت پر رہا کیاجائے۔ہم فسطائیت قبول نہیں کریں گے۔اگر عوام کھڑی ہوگئی تو ملک ٹوٹ جائے گا۔ڈی چوک معاملے کی عدالتی انکوائری ہونی چاہیے۔
شہباز حکومت حالات کو سنبھالے ،اداروں سے بیزار ہوچکے ہیں۔حکومت پاکستان امن دے یا ہماری جان چھوڑ دے ۔ووٹ خریدنےکےلئے کروڑوں روپے ہیں مگر غریبوں کو دینے کےلئے کچھ نہیں۔ اگر کسی کو پاکستان عزیز ہے تو وہ توبہ کرے۔بحران آنے پر غریب لوگ ملک کو بچائیں گے ناکہ لوٹنے والے لوگ ۔
پاکستان کے ادارے اتنے کمزور نہیں کے انہیں بچے کے اغواء کاروں کا علم نہ ہو۔عوام کو فوج کے ساتھ نہ ٹکرایاجائے۔تمام سیاسی جماعتیں بیٹھیں اور تین چار ماہ میں نئے الیکشن کروائے جائیں جوجیتے اسے حکومت دے دی جائے ۔
بانی پی ٹی آئی کو رہا کرنے سے آسمان نہیں گرے گا۔آئین کی بالادستی اور ووٹ کی توقیر چاہتے ہیں۔بلوچستان اسمبلی کی کسی قرارداد کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔