مسلم لیگ ن کا اسمبلیوں سے استعفوں کا حتمی فیصلہ! استعفے کب دیئے جائیں گے؟ سرپرائز دینے کا وقت آگیا

لاہور(قدرت روزنامہ) نامور کالم نگار شفیق اعوان روزنامہ نئی بات میں اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ’’ بالآخر مسلم لیگ ن نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے . البتہ سینیٹ میں وہ اپنا کردار ادا کرتی رہے گی .

یہ سب کچھ وہ مہنگائی کے خلاف نہیں بلکہ سیاسی و انتخابی ماحول کو گرم کرنے کے لیے ایک چال کے طور پر استعمال کرے گی . مسلم لیگی ذرائع استعفوں کے حوالے سے جس آئینی شق کا حوالہ دیتے ہیں وہ مضحکہ خیز لگتی ہے . مسلم لیگ یہ استعفے کب دے گی اس کا ذکر کالم کے آخر میں کروں گا . دلچسپ بات یہ ہے کہ جے یو آئی اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں مسلم لیگ ن کی اس تجویز سے متفق نہیں . قارئین جانتے ہیں کہ پچھلے کچھ عرصہ سے پی ڈی ایم کے پارلیمنٹ سے استعفوں کی رٹ سن کر کان پک گئے تھے . سب سے زیادہ یہ راگ عام انتخابات میں مسترد شدہ مولانا فضل الرحمان الاپ رہے تھے لیکن استعفے نہ آنے تھے نہ آئے . مسلم لیگ ن نے پی پی پی اور اے این پی کو باہر نکال کر پی ڈی ایم توڑنا گوارا کر لیا لیکن استعفوں کو ہوا نہ لگنے دی . اس حوالے سے مسلم لیگیوں سے بات چیت ہوتی رہتی تھی لیکن ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہ تھا بلکہ وہ اس بات سے متفق تھے کہ استعفوں کی ضد سے اپوزیشن اتحاد کمزور ہوا اور حکومت کو فائدہ . انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ پارٹی کے اندر بھی استعفوں کے معاملے پر پارٹی تقسیم تھی اور اکثریت کا یہ اصرار تھا کہ شہباز شریف کی بات مانتے ہوئے پیپلز پارٹی اور اے این پی کو پی ڈی ایم میں واپس لایا جائے . لیکن ایسا نہ ہو سکا اب تو شاید یہ دونوں جماعتیں بھی پی ڈی ایم میں واپسی میں دلچسپی نہیں رکھتیں . اس کی بڑی وجہ مسلم لیگ کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ شہباز شریف پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم کا سیکرٹری جنرل اور اے این پی کو پی ڈی ایم کا سیکرٹری اطلاعات بنانا چاہتے تھے تا کہ تمام جماعتیں یکسو ہو کر برابری کی سطح پر اتحاد میں کردار ادا کریں . اس وقت اتحاد کی سربراہی، سیکرٹری جنرل اور ترجمان کا تعلق مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام سے ہے . ذرائع کا دعویٰ ہے کہ شہباز شریف پی ڈی ایم کے عہدیداروں میں توازن چاہتے تھے لیکن لندن اور جاتی امرا سے انکی ایک نہ چلنے دی گئی . جس پر وہ بھی مایوس ہو گئے . دوسری طرف مسلم لیگ کے مزاحمتی گروپ نے سرعام پیپلز پارٹی کی تجاویز کا مذاق اڑایا بلکہ ایک اجتماع میں تو یہاں تک کہہ دیا گیا کہ پیپلز پارٹی اور اے این پی واپسی کی بھیک مانگ رہی ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہو گا . اتحادی سیاست میں ہر جماعت کو حصہ بقدر جسہ دیا جاتا رہا . .

متعلقہ خبریں