ڈیلی قدرت سپیشل

سانپ کا زہر صرف نقصان دہ نہیں

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)زمین پر بسنے والے جانداروں میں سانپ ایک ایسا جانور ہے جو ہمیشہ سے انسانی تاریخ کا حصہ رہا ہے کہیں اسے پر اسرار مخلوق کے طور پر دیکھا جاتاہے ۔ کہیں اسے ایک عام رینگنے والا جانور مانا جاتا ہے اور کہیں ایک موذی جاندار سمجھ کر مارد یا جاتا ہے ۔دنیا میں پائے جانے والے سانپوں کی کم و بیش تین ہزار اقسام ہیں جن میں سے صرف بیس فی صد زہریلے ہوتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ تعداد بہت کم ہے۔ ان زہریلے سانپوں میں سے بھی صرف ایک تہائی سانپ ایسے ہیں جوکسی انسان کو اپنے زہر سے نقصان پہنچاسکتے ہیں ۔

انسان کے اندر موجود جستجوں کی فطرت اور کھوج لگا نے کی عادت نے سانپ کے اندر موجود اس زہریلے مائع کو سمجھنے اور اس کے اندر موجود عناصر کو مختلف طریقوں سے استعمال کرنے کی طرف راغب کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں موجود مختلف قسم کے زہریلے سانپوں سے حاصل شدہ زہر پر ہر لحاظ سے تحقیق کی گئی ہے آج ہمیں مختلف قسم کے سانپوں کے زہر کے بارے میں جو معلومات حاصل ہیں وہ پہلے کبھی نہ تھی ۔

سانپ کا زہر صرف نقصان دہ نہیں
سانپوں کی ایک فیملی میں کوبرا، کریٹ ، تائی پن وغیرہ آتے ہیں جب کہ دوسری فیملی وائپر سانپوں کی ہے ۔ کوبرا یا اس کی فیملی کا سانپ عام طور سے دل اور دماغ کو مفلوج کرنے والے اثرات ظاہر کرتا ہے، جس میں دم گھٹتا ہو ابھی محسوس ہوتاہے ۔ دوسری طرف ایک وائپر سانپ کا زہر اپنے شکار کے خون کو نشانہ بناتا ہے اور خون کے جمنے یا بہنے یا دونوں صلاحتیوں کو مکمل طور پر مفلوج کردیتا ہے ۔ سانپ کا زہر 90سے 95فی صدلحمیات یا پروٹین پر مشتمل ہوتا ہے ۔ یہ پروٹین تقریبا ً 25کے قریب مختلف خامروں یا انزائم اور 30سے لے کر 100تک مختلف ٹاکسن سے لیس ہوتے ہیں ۔

یہی سانپ کے زہر کے وہ اجزاء ہیں جن کی وجہ سے کسی بھی سانپ کے کاٹے کا اثر ظاہر ہوتا ہے اگر پاکستان کی بات کی جائے تو 97فی صد مختلف قسم کے سانپ پائے جاتے ہیں جن میں سے 30کے قریب خشکی اور ساحلی پٹی پر موجود اقسام زہریلی ہیں۔ خشکی پر پائے جانے والے زہریلے سانپوں میں سے چار ایسے سانپ ہیں جن کے کاٹنے کے سب سے زیادہ واقعات سامنے آتے ہیں۔ ان میں کوبرا (کالاناگ ) ، رسل وائپر (کوریلا) ساسکیلڈ وائپر ( لنڈی) اور کریٹ (سنگ چور ) شامل ہیں۔

سانپ کا زہر صرف نقصان دہ نہیں
ان چاروں سانپوں سے حاصل ہونے والے زہر پر پاکستان میں اور پاکستان سے باہر مختلف تحقیقی مقالے شائع ہوچکے ہیں۔ پروٹیومکس سینٹر جامعہ کراچی میں ہونے والی تحقیق میں چار میں سے تین سانپ یعنی کوبرا،کریٹ اورساسکیلڈ وائپر کے زہر شامل ہیں۔ کوبرا اور کریٹ چونکہ ایک ہی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے وہ عمومی طور پر جسم کے اعصابی نظام اور سانس کے نظام پر اثر انداز ہونے والے ٹاکسن سے بھر پور زہر رکھتے ہیں جبکہ ساسکیلڈ وائپر کے زہر میں خون کا نظام خراب کرنے والے خامرے بڑی تعداد میں پائے گئے ہیں۔ٹاکسن کی مقدار البتہ کوبرا یا کریٹ کے زہر کے مقابلے میں کم پائی گئی ۔ عام طور سے اعصابی اور سانس کے نظام کو تباہ کرنے والے زہر زیادہ مہلک مانے جاتے ہیں ۔

دوسری طرف خون کے نظام کو خراب کرنے والے زہر اگرچہ زیادہ مہلک نہیں ہوتے ،مگر پٹھو ں اور خون کی نالیوں کو نقصان پہنچاتے ہیں، جس کی وجہ سے مریض بعض اوقات مکمل طور پر صحت یابی کی طرف نہیں جاتا۔ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ زہریلے سانپ اپنے منہ میں اوپر والے جبڑے میں دونوں طرف سوئی نما دانت رکھتے ہیں جو زہر کا شکار کر کے جسم کے اندر منتقل کرنے میں انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی جاندار کے جسم پر ان دودانتوں کے نشان زہریلے سانپ کے کاٹنے کی پہلی نشانی سمجھے جاتے ہیں ۔

ایک طرف تو سانپ کے زہر میں موجود ان زہریلے اجزاء کا نقصان اور ان کا تریاق بنانے کے لئے کام ہوتا رہا ہے تو دوسری طرف ان اجزاء کو علاج اور تشخیصی عمل کے لئے بھی استعمال کیا جارہاہے ۔ یہ بات عجیب لگتی ہے کہ سانپ کے زہر میں موجود اجزاء علاج یا کسی بیماری کی تشخیص کے لئے بھی کام آسکتے ہیں۔ اب ہم تحقیق کے اس زاویہ کی طرف ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ سب سے پہلے ہم بات کرتے ہیں ایک دوائی کی ،جس کا نام کیپوٹین ہے۔یہ دوابلند فشار خون کے علاج کے طور پر استعمال ہوتی ہیں ۔ اکثر دل کے دورے کو روکنے کے لئے یہ دوا مریض کے منہ میں زبان کے نیچے رکھی جاتی ہے ۔

سانپ کا زہر صرف نقصان دہ نہیں
یہ دوااصل میں برازیل کے ایک وائپر سانپ کے زہر میں پائے جانے والے پروٹین سے نکالی گئی ہے ۔اس زہر کے پروٹین کے فعال عنصر کو شناخت کرنے کے بعد اس کی نقل کرکے کیمیائی طور پر یہ دوا تیا ر کی گئی ہے جو آج پوری دنیا میں استعمال کی جاتی ہے ۔ اسی طرح اگر خون کی نالیوں میں خون کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ازخود جمنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ تو یہ کیفیت بھی دل کے دورے کا سبب بن سکتی ہے۔ اس بیماری کے علاج کے لئے بھی دو دوائیاں سانپ کے زہر سے نکالی گئی ہے ایک دو ا جو کہ ایگرا سٹیٹ کے نام سے مشہور ہے اصل میں ساسلیکڈ وائپر کے زہر کے پروٹین سے اخذ شدہ امینوایسڈ کی ترتیب سے نقل کرکے کیمیائی طور پر بنائی گئی ہے ۔

دوسری دوا فلوریڈا کے وائپر سانپ کے زہر سے اخذ شدہ ہے، جس کا نام انٹیگریلن ہے ۔ ان چند مثالوں کے علاوہ مختلف سانپوں کے زہر میں موجود دیگر خامروں کو بھی علاج کے لئے استعمال کیا جارہا ہے جیسے کسی جسمانی زخم کو مند مل کرنے کے لئے جنوبی امریکا میں پائے جانے والے ایک وائپر سانپ کے زہر میں موجود خامرہ کو استعمال کیا جارہا ہے ۔ یہ خامرہ خون کو جمنے میں مدد کرتا ہے اور مختلف جراحی طریقہ کار کے دوران خون کو بہہ جانے سے روکنے اور زخم بھرنے کے کام آتا ہے ۔

ان کے علاوہ دیگر اور بہت سے لحمیات ایسے ہیں جو سانپ کے زہر سے نکالے گئے ہیں اور دوابنائے جانے کے لئے مختلف مراحل سے گزرہے ہیں ۔ اگر بات کی جائے خون کی بیماریوں کی تو ان میں سے ایک بیماری جو کہ موروثی ہوتی ہے تھرو میوفیلیا کہلاتی ہے ۔اس بیماری میں خون از خود چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں خون کی نالیوں میں جمتا رہتا ہے ۔ اس بیماری کی تشخیص کے لئے ایک وائپر سانپ کے زہر سے حاصل ہونے والا پروٹین استعمال ہوتا ہے ۔ ہیموفیلیا اے اور وان ویلی برینڈ بیماری میں خون بہہ جانے کی صورت حال درپیش رہتی ہے ۔اس بیماری کی تشخیص میں بھی سانپ کے زہر سے حاصل شدہ پروٹین استعمال کیا جاتا ہے ۔

جو ٹاکسن سانپ کے زہر میں موجود ہوتے ہیں ان کو بھی اعصابی نظام اور اس میں موجود خلیوں کو پڑھنے اور بہتر طور پر سمجھنے کے لئے تجربہ گاہ میں استعمال کیا جاتاہے ۔ہر ٹاکسن کسی خاص قسم کے خلیے پر موجود ریسپٹر سے تعامل کرتی ہے جو کہ ان ریسپٹر کی مختلف دماغی خلیوں میں موجودگی کو ظاہر کردیتا ہے ۔ اسی طرح سے مختلف رویوں اور جذبات کو پڑھنے اور سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔ یہ مختلف تجربات دنیا کی بے شمار تحقیقی تجربہ گاہوں میں معمول کے طور پر کئے جاتے ہیں خاص طور پر جہاں رویے کے علوم پڑھائے جاتے ہیں ۔

سانپ کا زہر صرف نقصان دہ نہیں
علاج معالجے کے شعبے میں سانپ کے زہر سے حاصل ہونے والے لحمیات نے اپنی جگہ بنالی ہے یہ شعبہ ابھی بھی بہت سے راز اپنے اندر چھپائے ہوئے ہے۔ پاکستان میں سانپ کے زہر پر ہونے والی تحقیق ابھی تک بنیادی معلومات پر ہی مشتمل ہیں۔ حالاںکہ پاکستان میں پائے جانے والے زہریلے سانپوں میں سے بعض سانپ کلی طور صرف پاکستان میں ہی موجود ہیں ۔ا ن میں سندھ کے اندر پایا جانے والا کریٹ سانپ اور بلوچستان میں نوشکی کے علاقے میں پایا جانے والا پتہ ناک وائپر شامل ہیں۔

ان سانپوں کے زہر پر بنیادی کام ہوچکا ہے اب دوسرے مرحلے میں اس تحقیق کا رخ زہر میں موجود جزو کا حیاتیاتی فنکشن کا جائزہ لینا ہے۔ اس تحقیق کے نتیجے میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ ایک مختلف قسم کا سانپ ہونے کا باعث زہر میں اجزاء کی سطح پر جو فرق موجود ہے اس کے سبب کچھ نئے لحمیات شناخت ہوجائیں گے یہ از خود مستقبل کی تحقیق کی بنیاد بنے گیں ۔ اس سلسلے میں کئی تحقیقی پروجیکٹ اپنی ابتدائی مراحل میں شروع ہوچکے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان پروجیکٹ کی تکمیل ہوسکے۔ اوپر بیان کی گئی تفصیل سے یہ بات بہ خوبی سمجھ میں آسکتی ہے کہ سانپ کے زہر میں موجود لحمیات ایک انوکھی افادیت رکھتے ہیں۔

جہاں انسان نے جڑی بیوٹیوں سے اپنی مختلف بیماریوں کا علاج دریافت کیا ہے ۔بالکل اسی طرح جانوروں کے زہر کی معلومات سے کئی ایک طبی خرابیوں کو ٹھیک کرنے کی تدبیر کرلی ہے ۔ جدید ٹیکنالوجی اور طاقتور آلات ، جو کہ پہلے کبھی موجود نہیں تھے،ان کے ذریعے یہ تحقیقی کام تیز رفتاری سے دسیگر سنگ میل طے کرتا جارہا ہے ۔ اس بات کی اُمید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں اور بھی بہت سے علاج معالجے سے تعلق رکھنے والے نادر سالمے یا مالیکیول سامنے آئیں گیں جو کہ بیماری کے بعد انسان کی زندگی کے معیار کو تیزی سے بہتر بنانے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔

متعلقہ خبریں