عمران خان قائداعظم کے وژن کے مطابق پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کے خواہاں ہیں، فواد چوہدری
قائداعظم اور علامہ اقبال پاکستان کو مذہبی ریاست نہیں بنانا چاہت تھے، پاکستان اس وقت دو مذہبی انتہا پسند ممالک کے درمیان گھرا ہوا ہے، طالبان کی جانب سے خواتین کا تنہا سفر کرنااور بچیوں کو سکول کی اجازت نہ دینا انتہائی جنونیت ہے،ہندوستان میں مودی کی حکومت میں اقلیتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں،نیویارک ٹائمز میں آج مسیحوں پر روا رکھے جانے والے مظالم کو صفحہ اول پر جگہ دی گئی ہے،بھارت اس وقت اقتصادی معاشی اور خارجہ پالیسی میں اوپر جانے کے بجائے نیچے کی طرف جا رہا ہے،وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری کا تقریب سے خطاب
اسلام آباد (قدرت روزنامہ)وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان قائداعظم کے وژن کے مطابق پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے کے خواہاں ہیں، قائداعظم اور علامہ اقبال پاکستان کو مذہبی ریاست نہیں بنانا چاہت تھے، پاکستان اس وقت دو مذہبی انتہا پسند ممالک کے درمیان گھرا ہوا ہے، طالبان کی جانب سے خواتین کا تنہا سفر کرنااور بچیوں کو سکول کی اجازت نہ دینا انتہائی جنونیت ہے جبکہ دوسری جانب ہندوستان میں مودی کی حکومت میں اقلیتوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں،نیویارک ٹائمز میں آج مسیحوں پر روا رکھے جانے والے مظالم کو صفحہ اول پر جگہ دی گئی ہے،بھارت اس وقت اقتصادی معاشی اور خارجہ پالیسی میں اوپر جانے کے بجائے نیچے کی طرف جا رہا ہے۔ پیر کو اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کو مذہبی ریاست بنانا چاہتے تھے،
علامہ اقبال اور قائداعظم کے وژن کا مقصد پاکستان کو جدید فلاحی اسلامی ریاست بنانا تھا،قائداعظم ماڈرن سوچ اور لبرل شخصیت تھے، انہوں نے اپنی تقاریر میں واضح کردیا تھا کہ وہ پاکستان کو مذہبی ریاست نہیں بنانا چاہتے تھے،انہوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ پاکستان بن گیا ہے اب ہندوئوں کو اپنے مندروں، عیسائیوں کو اپنے گرجا گھروں میں جانے کی مکمل آزادی ہے، وہ اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کر سکتے ہیں۔ فواد چوہدری نے کہا کہ قائداعظم کے برعکس ابو کلام آزاد اور مولانا مودودی دینی عالم سکالر تھے، ابو کلام آزاد نے قرآن کی تفاسیر لکھیں اور احادیث نبویؐ لکھیں،اسی طرح مولانا مودودی بلند پایہ اسلامی مفکر تھے،جے یو آئی کے اکابرین بھی بلند پایہ علماء تھے اور ان کا اپنا حلقہ اثر تھا،وہ ریاست کو حدوں میں نہیں رکھنے کے قائل تھے جبکہ علامہ اقبال اور قائداعظم ایک جدید اسلامی فلاحی مملکت کا تصور رکھتے تھے اور اسی کیلئے وہ کوشاں رہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں اس وقت مذہبی جنونیت روزبروز بڑھ رہی ہے جبکہ دوسری جانب افغانستان میں طالبان بھی مذہبی انتہا پسند ہیں،ہم طالبان کا نہیں بلکہ افغان عوام کا مقدمہ لڑ رہے ہیں،طالبان کی جانب سے خواتین کا تنہا سفر کرنا، بچیوں کو سکول و کالج جانے سے روکنا مذہبی انتہا پسندی ہے، پاکستان ان دو انتہا پسند ملکوں کے درمیان گھرا ہوا ملک ہے جسے دنیا بڑے غور سے دیکھ رہی ہے۔ وزیراطلاعات نے کہا کہ سانحہ سیالکوٹ میں ایک معصوم سری لنکن شہری کو غیر قانونی طور پر قتل کیا گیا تھا جس کی پورے پاکستان نے مذمت کی تھی جبکہ دوسری جانب انڈیا میں مسلمانوں کو قتل کرنا معمول بن چکا ہے،نیویارک ٹائمز میں اب پیر کے روز صفحہ اول پر مسیحوں پر روا رکھے جانے والے مظالم کو اجاگر کیا گیا ہے،قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کی سوچ تھی کہ پاکستان کو اقلیتوں کیلئے ایک محفوظ ملک بنایا جائے جہاں انہیں اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو۔(اح+م ع)