سیارہ زہرہ کے بادلوں میں زندگی کے آثار ۔۔۔سائنسدانوں کو اب تک کی بڑی کامیابی مل گئی
اسلام آباد(قدرت روزنامہ)محققین نے انکشاف کیا ہے کہ سیارے زہرہ کے بادلوں میں زندگی کے آثار ملے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ زہرہ کے بادلوں میں بیکٹیریا کی زندگی کے ثبوت سامنے آنے کے بعد اس بات کا امکان ہے کہ اُسے مزید زندگی کے قابل جگہ بنایا جاسکے۔اس حوالے سے کارڈف یونیورسٹی، ایم آئی ٹی اور کیمبرج یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ زمین سے چار کروڑ 73 لاکھ کلو میٹر کے فاصلے پر موجود اس سیارے کے بادلوں میں نائیٹروجن اور ہائیڈروجن سے بنی بے رنگ گیس، جس کو امونیا کے نام سے جانا جاتا ہے، ہوسکتی ہے۔سائنس دانوں نے ایک سیٹ پر کیمیکل عمل دِکھایا کہ اگر سیارے زہرہ پر امونیا موجود ہوگی تو کس طرح کیمیکل ری ایکشن کا تواتر اطراف میں موجود سلفیورک ایسڈ کے قطروں کو نیوٹرل کرتا ہوگا۔
اس کے نتیجے میں بادلوں کی تیزابیت منفی 11 سے اتر کر صفر پر آ جاتی ہوگی۔ اگرچہ پی ایچ اسکیل پر یہ اب بھی بہت تیزابی صورتحال ہے لیکن یہ ایسی سطح ہوگی جہاں زندگی ممکنہ طور پر باقی رہ سکے گی۔کارڈف یونیورسٹی کے اسکول آف فزکس اینڈ آسٹرونومی سے تعلق رکھنے والے تحقیق کے شریک مصنف ڈاکٹر ولیم بینس کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ زمین پر تیزابی ماحول میں زندگی نمو پا سکتی ہے لیکن جتنے تیزابی زہرہ کے بادل ہیں اتنا تیزابی کچھ بھی نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ لیکن اگر کوئی چیز بادلوں میں امونیا بنا رہی ہے تو وہ کچھ قطروں کو نیوٹرلائز کرتے ہوئے انہیں ممکنہ طور پر مزید زندگی کے قابل بنائیں گے۔
ماہرینِ فلکیات اور سائنس دان زہرہ بالائی ایٹماسفیئر پر موجود امونیا کا 1970 کی دہائی سے مطالعہ کر رہے ہیں۔ بالخصوص جب یہ ہمیشہ سے مانا جاتا رہا ہے کہ یہ سیارہ اتنا گرم ہے کہ وہاں زندگی باقی نہیں رہ سکے گی۔اب یہ بات کہی جا رہی ہے کہ ممکن ہے وہاں بادلوں میں دنیا میں پائے جانے والے بیکٹیریا جیسی حیاتیات موجود ہوں۔ سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ امونیا کی بنیاد بائیولوجیکل ہیں نا کہ قدرتی عوامل جیسے کہ بجلی کا کڑکنا یا آتش فشاں کا پھٹنا۔ایم آئی ٹی سے تعلق رکھنے والی تحقیق کی شریک مصنف پروفیسر سارا سیگر کا کہنا تھا کہ امونیا کو سیارے زہرہ پر نہیں ہونا چاہیئے۔انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہائیڈروجن جڑی ہے اور وہاں پر بہت تھوڑی ہائیڈروجن ہے۔ کوئی بھی گیس جو اپنے اطراف کے ماحول سے مطابقت نہ رکھتی ہو اس کے متعلق خود بخود یہ شک جاتا ہے کہ اُسے کسی زندگی نے بنایا ہے۔