پاکستان

ادوایات ساز اداروں میں ٹیکس چھوٹ کا غیر قانونی استعمال کیا جارہا ہے، چیئرمین ایف بی آر

اسلام آباد(قدرت روزنامہ) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا جس میں اپوزیشن ارکان اور چیئرمین کمیٹی نے ضمنی فنانس بل کی منظوری اور سفارشات مرتب کرنے کے لئے دو دن کی مہلت دینے پر تحفظات اظہار کیا ہے۔سینیٹر طلحہ محمود کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا جس میں اپوزیشن ارکان اور چیئرمین کمیٹی نے ضمنی فنانس بل کی منظوری اور سفارشات مرتب کرنے کے لئے دو دن کی مہلت دینے پر تحفظات اظہار کیا جبکہ کمیٹی اجلاس میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان آمنے سامنےآگئے۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ضمنی فنانس بل پر جمعہ تک وقت چیئرمین سینیٹ نے دیا ہے جس پر سینیٹر مصدق ملک نے کہا کہ آئین کے مطابق ضمنی فنانس بل پر 14 دن دیئے جاتے ہیں اور یہ غیر آئینی ہدایات ایوان کی طرف سے آئی ہیں۔مصدق ملک کا جواب دیتے ہوئے سینیٹر ذیشان خانزادہ کا کہنا تھا کہ وزارت قانون سے پوچھ لیں کہ کیا یہ غیر آئینی ہے؟ جس پر سینیٹر شیری رحمان کا کہنا تھا کہ سب باتیں وزارت قانون سے نہیں پوچھی جاتیں۔
بعد ازاں سینیٹر محسن عزیز کا کہنا تھا کہ ہم آج اس پر بات شروع کرتے ہیں اور شق وار جائزہ لیتے ہیں جس کے بعد کمیٹی نے ضمنی فنانس بل کا شق وار جائزہ لینا شروع کیا۔
ضمنی فنانس بل پر بریفنگ دیتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر اشفاق احمد کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا مطالبہ تھا کہ سیلز ٹیکس کو اسٹینڈرڈ ریٹ پر 17 فیصد پر لایا جائے جبکہ آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیکس چھوٹ ختم کرنے اور ٹیکس اصلاحات کا مطالبہ سامنے آیا۔
چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ ماضی میں ہم نے ٹیکس اصلاحات کے نام پر نئے ٹیکس لگائے اور ٹیکس چھوٹ ختم نہیں کی، ہم نے سبسڈیز کو نہیں چھیڑا اور صرف ٹیکس اخراجات سمیت چھوٹ پر کام کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ ٹارگٹڈ سبسڈی جتنی چاہے دیں۔
ڈاکٹر اشفاق احمد کا کہنا تھا کہ فارما انڈسٹری کی 112 ارب روپے مشینری پر ٹیکس چھوٹ سمیت 160 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ فارما انڈسٹری کی ختم کی گئی ہے جبکہ مختلف لگژری درآمدی اشیاء پر 71 ارب کی ٹیکس چھوٹ کو بھی ختم کیا گیا ہے۔
چیئرمین ایف بی آر کے بیان پر سینیٹر مصدق ملک کا کہنا تھا کہ کیا آپ یہ کمٹمنٹ کرتے ہیں کہ اس اقدام سے ادویات کی قیمتوں میں کمی ہوگی جس پر چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ ہم کمٹمنٹ نہیں کرسکتے لیکن اس معاملہ کو ڈریپ کو بھیجا جائے گا۔سینیٹر مصدق ملک نے ان سے سوال کیا کہ کون کمٹمنٹ دے گا وزارت خزانہ سے کمٹمنٹ لیں؟ جس پر چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ ہم نے ڈریپ کو بلایا تھا، ڈریپ والے کیوں نہیں آئے، اس سے ادویات کی قیمتوں میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوگا۔
اجلاس میں چیئرمین ایف بی آر کی بریفنگ کے دوران سینیٹر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف ایک منی لینڈر کی طرح اپنے قرض کو محفوظ کرنے کیلئے حاوی ہے جس پر سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ یہ صرف ریگولیٹ کرنے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔
سینیٹر محسن عزیز کا کہنا تھا کہ اس میں ریفنڈ کے عمل کو درست کیا جائے گا جبکہ ماضی میں ایک وزیراعظم نے ٹیکس ریفنڈ کا لفافہ دیا جو خالی تھا اور ماضی میں ٹیکس ریفنڈ روکے گئے تھے۔سینیٹر محسن عزیز نے فارما انڈسٹری کیلئے ٹیکس چھوٹ ختم کرنے میں اصلاح کی تجویز پیش کی کہ فارما انڈسٹری سے ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کے بجائے بینک گارنٹی لی جائے لیکن چیئرمین ایف بی آر نے ان کی تجویز کی مخالفت کردی۔
چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ فارما انڈسٹری پر ٹیکس لگانے کے بعد بروقت ریفنڈ ادا کیا جائے گا کیونکہ ایف بی آر نے ریفنڈ کا سسٹم بہتر کرکے جلد ریفنڈ دینے کا طریقہ کار بنایا ہے اور ایف بی آر فارما انڈسٹری کو 48 گھنٹوں کے اندر ریفنڈز کی ادائیگی کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ 72 گھنٹوں میں سیلز ٹیکس ریفنڈز کا اجراء کیا جارہا ہے، میں یہ اعلان کرتا ہوں جن کے بھی سیلز ٹیکس ریفنڈز 72 گھنٹوں میں نہیں ملے وہ کمیٹی سے رجوع کریں۔ان کا کہنا تھا کہ دوائیاں بنانے والی کمپنیوں کو ریفنڈز ملے گا اور فارما انڈسٹری کے لئے درآمدی اسٹیج پر ٹیکس لیا جائے گا جس سے ادویات کی قیمتوں میں کمی ہوگی، فارما انڈسٹری اس ٹیکس چھوٹ پر ریفنڈ کلیم کرسکتی ہے جبکہ فارما انڈسٹری کو صرف ریگولیٹ کرنے کے لئے یہ اقدام کیا گیا ہے۔
چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ ایسے افراد کو کمیٹی کے اجلاس میں بلایا جائے گا، یہ ایک حقیقت ہے کہ ٹیکس کی سہولت کی اب کوئی گنجائش نہیں رہ گئی جبکہ میں اس خدشے سے متفق ہوں کہ ادویات کی قیمتیں بڑھیں گی۔انہوں نے کہا کہ 700 ارب روپے کا فارما انڈسٹری کا ٹرن اوور ہے اور 530 ارب روپے کی غیر دستاویزی سپلائی چین ہے۔ مینوفیکچررز میں 800 میں سے صرف 453 مینوفیکچررز رجسٹرڈ ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فارما انڈسٹری میں ٹیکس چوری، ٹیکس چھوٹ کا غیر قانونی استعمال کیا جارہا ہے جبکہ 35 ارب روپے کا ان پٹ ٹیکس مریضوں پر منتقل کیا جاتا ہے۔ جعلی اور ٹیکس کے بغیر ادویات کو ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے ذریعے روکیں گے۔چیئرمین ایف بی آر کا مزید کہنا تھا کہ ادویات کی پیکنگ میں وٹامن کو ٹیکس چھوٹ نہیں ملے گی جبکہ کمیٹی نے وٹامن کی فہرست ڈریپ سے طلب کرلی ہے۔

متعلقہ خبریں