اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کیسز کا دباؤ، ڈپٹی چیئرمین نیب حسین اصغر کے استعفے کی وجہ سامنے آگئی
اسلام آباد (قدرت روزنامہ) ڈپٹی چیئرمین نیب حسین اصغر کے استعفے کی وجہ سامنے آگئی۔ ڈان نیوز کے پروگرام ’لائیو ود عادل شاہزیب‘ میں اینکر نے بتایا کہ اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کیسز بنانے کے لیے جس شخصیت (ڈپٹی چیئرمین نیب حسین اصغر) کو لایا گیا تھا انہوں نے بھی کہا کہ یہ کیسز نہیں بنتے۔انہوں نے کہا کہ نہ تو نیب کے کیسز بنتے ہیں اور نہ ہی سزائیں بنتی ہیں۔
اینکر نے مزید بتایا کہ ڈپٹی چیئرمین نیب حسین اصغر اسی وجہ سے مستعفی ہو گئے تھے کہ اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف عدم شواہد کی بنا پر بننے والے کیسز کی قانونی اہمیت نہیں ہے۔ حسین اصغر اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کیسز کو کمزور سمجھتے تھے۔سابق ڈپٹی چئیرمین نیب و دیگر سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے خلاف کیسز پر بھی معترض رہے۔
ذرائع کے مطابق شاہد خاقان عباسی،مفتاح اسماعیل اور احسن اقبال کے کیسز میں کرپشن کے ثبوت نہیں تھے۔
حسین اصغر مختلف اہم کیسز سے متعلق لکھ چکے ہیں کہ بغیر ثبوت کے کارروائی نہیں بنتی۔ان کا دو ٹوک موقف تھا کہ ان کیسز میں گرفتاری اور سزائیں نہیں بنتیں۔ حسین اصغر کو اس بنا پر 8 ماہ سے سائیڈ لائن کر دیا۔حسین اصغر نے جن مخصوص کیسز میں ٹھوس شواہد نہ ہونے کا اعتراض کیا تھا ان میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کے خلاف ایل جی کیس اور احسن اقبال کے خلاف نارروال سپورٹس کمپلیکس سمیت کئی اہم کیسز شامل ہیں۔
ان کیسز سے متعلق حسین اصغر اور جسٹس جاوید اقبال کے درمیان بھی بحث ہوچکی ہے. حسین اصغر سمجھتے تھے کہ ان کیسز میں کرپشن سے زیادہ طریقہ کار کی خامیاں ہیں۔اینکر نے دعویٰ کیا کہ اس تمام صورتحال کے پیش نظر حسین اصغر کو گذشتہ 8 ماہ سے سائیڈ لائن کیا گیا تھا اور انہیں اہم کیسز کی فلائلیں بھی نہیں بھجوائی جاتی تھیں۔
۔واضح رہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے ڈپٹی چیئرمین حسین اصغر نے 04 اکتوبر2021ء اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔ حسین اصغر کا استعفیٰ 6 اکتوبر کو منظور کیا گیا۔اس سے متعلق نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔بعدازاں ڈپٹی چیئرمین نیب کیلئے ظاہر شاہ کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
ڈپٹی چیئرمین نیب حسین اصغر کے استعفے کی وجہ سامنے آگئی
مفتاح اسماعیل، احسن اقبال، خاقان عباسی سمیت کئی اہم کیسسز بنتے ہی نہیں تھے مگر بنئے گئے۔
حسین اصغر ان کیسز کو کمزور سمجھتے تھے۔ ذرائع
1/2 pic.twitter.com/vEbHgFvn6Z— Live with Adil Shahzeb (@AShahzebLive) January 5, 2022