ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس، وزیر اعظم نے مشاورت کیلئے اہم اجلاس طلب کر لیا

اسلام آباد (قدرت روزنامہ) ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس، وزیر اعظم نے مشاورت کیلئے اہم اجلاس طلب کر لیا . تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس کے حوالے سے پارٹی کا اہم اجلاس طلب کر لیا ہے .

میڈیا رپورٹس کے مطابق اجلاس رات ساڑھے 8 بجے عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالہ میں ہو گا . اجلاس میں تحریک انصاف کے سینئر رہنما شرکت کریں گے، اجلاس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر غور کیا جائے گا .

دوسری جانب سپریم کورٹ کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس کا فیصلہ سنانے سے قبل الیکشن کمیشن کے حکام کو طلب کیا گیا، جس کے بعد سیکرٹری الیکشن کمیشن اور دیگر حکام کمرہ عدالت پہنچ گئے . جبکہ فیصلے کے اعلان سے قبل سپریم کورٹ کی سیکورٹی سخت کر دی گئی، غیر متعلقہ افراد کو عدالت میں داخلے سے روک دیا گیا .

اس سے قبل سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا .

اعلان کیا گیا کہ از خود نوٹس کیس پر ججز کی مشاورت کے بعد شام ساڑھے 7 بجے فیصلہ سنایا جائے گا . جمعرات کے روز سپریم کورٹ میں اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی ، جہاں آج دوران سماعت عدالتی حکم پر قومی سلامتی کمیٹی برائے پارلیمان کے منٹس پیش کیے گئے ، اسپکر کے وکیل نعیم بخاری نے منٹس عدالت عظمیٰ میں پیش کیے ، جس پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ منٹس تو ہیں اس میں حاضری کی تفصیل کہا ہے؟کمیٹی اجلاس میں کون کون شریک رہا؟ اجلاس کے شرکاء کو کس نے بریفنگ دی؟ ریکارڈ کے مطابق نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں 11 افراد شریک تھے .

اس پر نعیم بخاری نے بتایا کہ کمیٹی میں شرکت کے لیے 29 لوگوں کو نوٹس دیئے گئے تھے . یہاں جسٹس مندو خیل نے پوچھا کیا اس کمیٹی کی میٹنگ میں وزیر خارجہ تھے؟ اس کے جواب میں نعیم بخاری نے کہا کہ جی وزیرخارجہ موجود تھے ، شرکا کی لسٹ میں تیسرا نمبر ہے ، اس کے بعد پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو بھی خط پر بریفنگ دی گئی .  نعیم بخاری کے دلائل مکمل ہوئے تو اٹارنی جنرل خالد جاوید نے دلائل کا آغاز کیا ، انہوں نے کہا کہ 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد لیو گرانٹ ہوئی ، چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے استفسار کیا لیوکون گرانٹ کرتا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہاؤس لیو گرانٹ کرتا ہے .

اس کے بعد جسٹس جمال مندوخیل نے خالد جاوید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا یہ آپ کا آخری کیس ہے؟ تو اٹارنی جنرل نے کہا اگر آپ کی خواہش ہے تو مجھے منظور ہے ، اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا پوری بات تو سن لیں ، ہم چاہتے ہیں آپ اگلے کیس میں بھی دلائل دیں . اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی کارروائی کو عدالتی جائزے سے استثنیٰ حاصل ہے ، کیس کا فیصلہ تفصیل میں جائے بغیر دیا جا سکتا ہے کہ کون وفا دار ہے کون نہیں؟ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی تفصیل کھلی عدالت میں نہیں دے سکتا ، عدالت کسی کی وفاداری پر سوال اٹھائے بغیر بھی فیصلہ کرسکتی ہے ، قومی سلامتی کمیٹی میں انتہائی حساس نوعیت کے معاملات پر بریفنگ دی گئی، قومی سلامتی کمیٹی پر ان کیمرہ سماعت میں بریفنگ دینے پر تیار ہوں ، صدر مملکت کوئی وجہ یا حالات جانے بغیر اسمبلی تحلیل کا اختیار رکھتے ہیں .

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ وزیراعظم سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں ، اس لئے اسمبلی توڑنے کا اختیار بھی انہی کے پاس ہے، اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے وزیراعظم کو وجوہات بتانا ضروری نہیں -، صدر سفارش پر فیصلہ نہ کریں تو 48 گھنٹے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہو جائیں گی جب کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹ ڈالنا کسی رکن کا بنیادی حق نہیں تھا ، ووٹ ڈالنے کا حق آئین اوراسمبلی رولز سے مشروط ہے، اسپیکر کسی رکن کو معطل کرے تو وہ بحالی کیلئےعدالت نہیں آسکتا ، حکومت کی تشکیل ایوان میں کی جاتی ہے ، آئین ارکان کی نہیں ایوان کی 5 سالہ معیاد کی بات کرتا ہے .

چیف جسٹس نے کہا آپ کہنا چاہتے ہیں تحریک عدم اعتماد پرووٹنگ رولزسے مشروط ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد سمیت تمام کارروائی رولز کے مطابق ہی ہوتی ہے ، پارلیمان کارروائی کو مکمل استثنیٰ حاصل ہونے کی دلیل کا حامی نہیں ، ایسا نہیں کہ ایوان کے اندر کبھی کچھ بھی دیکھا نہیں جا سکتا اور ایسا بھی نہیں کہ پارلیمان کے اندر مداخلت مسلسل کی جائے، اسپیکر کم ووٹ والے کے وزیراعظم بننے کا اعلان کرے تو عدالت مداخلت کرسکتی ہے .

اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک پیش کرنےکی منظوری کیلئے 20 فیصد یعنی 68 ارکان کاہونا ضروری نہیں، اگر 68 ارکان تحریک منظور اور اس سے زیادہ مسترد کریں توکیا ہوگا؟ جس پر جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ 172ارکان تحریک پیش کرنے کی منظوری دیں تو وزیراعظم فارغ ہوجائے گا؟ اٹارنی جنرل نے کہا اسمبلی میں کورم پورا کرنے کیلئے 86 ارکان کی ضرورت ہوتی ہے ، تحریک پیش کرنے کی منظوری کے وقت اکثریت ثابت کرنا ضروری ہے، تحریک پیش کرتے وقت تمام 172 لوگ سامنے آ جائیں گے، تحریک پیش کرنے، ووٹنگ میں 3سے 7دن کا فرق بغیر وجہ نہیں، 7دن میں وزیراعظم اپنے ناراض ارکان کو منا سکتا ہے .

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فواد چوہدری 28 مارچ کواعتراض کرتے تو کیا تحریک پہلے مسترد ہوسکتی تھی؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک پیش ہونے کے وقت بھی مسترد ہوسکتی تھی ، تحریک عدم اعتماد قانونی طور پر پیش کرنے کی منظوری نہیں ہوئی . جسٹس مظہر عالم نے سوال کیا کہ اسپیکر نے قرار دیا تحریک منظور ہوگئی آپ کیسے چیلنج کرسکتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اسپیکر کی رولنگ چیلنج نہیں ہوسکتی تو کیس ہی ختم ہوگیا ، تحریک پیش کرنے کے حق میں 161 لوگوں نے ووٹ کیا تھا ، 68 لوگ تحریک پیش کرنے کی منظوری اور 100 مخالفت کریں تو کیا ہوگا؟ مجموعی رکنیت کی اکثریت ہو تو ہی تحریک پیش کرنے کی منظوری ہوسکتی ہے، آئین میں کہیں نہیں لکھا اکثریت مخالفت کرے تو تحریک مسترد ہوگی ، تحریک پیش کرنے کی منظوری کا ذکر اسمبلی رولز میں ہے .

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 55 کے مطابق فیصلے ہاؤس میں موجود اراکین کی اکثریت سے ہوں گے ، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کورم 86 کا ہے 68 کی قرارداد آئی ،اسے 44 لوگ مسترد کر سکتے تھے . جسٹس عطا بندیال کا کہنا تھا کہ اگر 68 سپورٹ کر رہے ہیں تو لیو گرانٹ ہونی چاہیے، 172 اراکین کی ضرورت تو ووٹنگ کے دن ہو گی، لیو گرانٹ اسٹیج پر 172 ارکان کی ضرورت نہیں، آرٹیکل55 کے تحت ایوان کے فیصلے اکثریت سے ہوتے ہیں .

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا لیوگرانٹ کے وقت 172ارکان چاہیے تو پھر بات اسوقت ہی ختم ہوگئی .  چیف جسٹس پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ یہ انٹرل پروسیجرہے اس میں ہمیں نہیں جاناچاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ بعد میں اسمبلی توڑ دی گئی، اگر سمبلی نہ توڑی جاتی تو اراکین مسئلے کا حل نکال لیتے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا اسمبلی قرارداد کی موجودگی میں تحلیل نہیں ہو سکتی .

جسٹس عطا بندیال نے کہا میں بھی اسی سے متعلق آپ سے پوچھ رہا ہوں، اگر اسمبلی تحلیل نہ کی جاتی تو اس کا حل نکالا جا سکتا تھا، تحریک منظور کرنےکی اسپیکرنےرولنگ دیدی توبات ختم ہوگئی، اسپیکر کے وکیل نے کہا رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا . اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا تو کیس ختم ہوگیا، 3اپریل کو بھی وہی اسپیکر تھا اور اسی کی رولنگ تھی، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسمبلی کی تحلیل اصل مسئلہ ہےاس پرآپ کو سنناچاہتےہیں تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد نمٹانےکےبعدہی اسمبلی تحلیل ہوئی .

چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ دیکھنا ہے اسمبلی تحلیل اوراسپیکر رولنگ میں کتنےٹائم کافرق ہے، ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کامیاب ہو اور کام کرے، اٹارنی جنرل نے کہا سب سے بہتر بات یہ ہے کہ عوام کے پاس جایا جائے . جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اس معاملےمیں عدالت نتائج کونہیں دیکھ رہی، ہم نے قانون کو دیکھنا ہے، ہم نے آئینی معاملات کو دیکھنے ہیں .

اٹارنی جنرل نے کہا میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا دفاع نہیں کررہا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کہتے ہیں انتخابات ہی واحد حل ہے، کوئی اورحل کیوں نہیں تھا؟ تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ دنیا میں کہیں بھی اپوزیشن لیڈر وزیراعظم نہیں بنتا .  چیف جسٹس نے مزید کہا کئی ممالک میں بنتےہیں مگراپوزیشن لیڈر وزیراعظم بنےتوکام نہیں چلتا تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کسی رکن اسمبلی کو عدالتی فیصلےکے بغیر غدار نہیں کہا جا سکتا .

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس میں کہا عدالت کو یہ نہیں دیکھنا کہ اس کے اثرات کیاہونگے ، پھر تو نظام چل نہیں سکے گا تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بالکل درست ہے میں رولنگ کی حمایت نہیں کر رہا ، ماضی میں آپ نے ایک اسمبلی توڑی اور وہ48 گھنٹے میں دوبارہ ٹوٹ گئی . جس پر چیف جسٹس نے کہا اس لئے سب کو الیکشن میں جانا چاہیے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے عدالت نے حالات و نتائج کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا، عدالت نے آئین کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے، کل کو کوئی اسپیکر آئے گا وہ اپنی مرضی کرے گا، عدالت نے نہیں دیکھنا کون آئے گا کون نہیں .

اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا میرا کنسرن نئے انتخابات کا ہے تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ قومی مفاد کو بھی ہم نے دیکھنا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے مزید کہا اگر یہ اسمبلی بحال ہوتی ہے تو ہو سکتا ہے نہ چلے .  چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا ایک بات تو واضع نظر آ رہی ہے محترم کی رولنگ غلط ہے، ایک بات تو نظر آگئی رولنگ غلط ہے اب یہ بتائیں اگلا قدم کیاہوگا، اب آگے کیا ہونا ہے یہ دیکھنے والی بات ہے، آج اس کیس کو ختم کریں گے .

اس سے پہلے وزیراعظم کے وکیل امتیاز صدیقی نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت ماضی میں اسمبلی کارروائی میں مداخلت سےاجتناب کرتی رہی ہے ، چوہدری فضل الہٰی کیس میں اراکین کو ووٹ دینے سے روکا اور تشدد کیا گیا ، عدالت نے اس صورتحال میں بھی پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کی ، ایوان کی کاروائی عدلیہ کے اختیار سے باہر ہے ، عدالت پارلیمان کو اپنا گند خود صاف کرنے کا کہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کہا گیا عدم اعتماد پر لیو گرانٹ ہونے کے بعد رولنگ نہیں آ سکتی، درخواست گزار کہتے ہیں 28مارچ کو تحریک پیش ہونے سے پہلے رولنگ آسکتی تھی .

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا اس معاملے پر آپ کیا کہیں گے؟ اس پر وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کی صدارت پراعتراض نہیں کیا تھا ، ڈپٹی اسپیکرنے اپنے ذہن کے مطابق جو بہتر سمجھا وہ فیصلہ کیا ، پارلیمان میں ڈپٹی اسپیکر نے جو فیصلہ دیا اس پروہ عدالت کو جوابدہ نہیں کیوں کہ تحریک عدم اعتماد خالصتاً پارلیمان کی کارروائی ہے اس لیے مداخلت نہیں ہوسکتی .

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ قانون یہی ہے کہ پارلیمانی کارروائی کے استحقاق کا فیصلہ عدالت کرے گی لیکن عدالت جائزہ لے گی کہ کس حد تک کارروائی کو استحقاق حاصل ہے؟ اس پرامتیاز صدیقی نے کہا کہ اسپیکر کو اگر معلوم ہو بیرونی فنڈنگ ہوئی یا ملکی سالمیت کو خطرہ ہے تو اسپیکر قانون سے ہٹ کر بھی ملک کو بچائے گا ، اس لیے اسپیکر نے اپنے حلف کے تحت بہترفیصلہ کیا ، اسپیکر کا فیصلہ پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے ، آرٹیکل 69 کو 127 سے ملا کر پڑھیں تو پارلیمانی کارروئی کو تحفظ حاصل ہے ، سپریم کورٹ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی .

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسپیکر کے سامنے کیا مواد موجود تھا جس پر انہوں نے تحریک کوختم کیا؟ وکیل وزیراعظم نے بتایا کہ اس سوال کا جواب اٹارنی جنرل دیں گے ، ڈپٹی اسپیکر نے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی پر انحصار کیا ، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی پر کوئی اثرانداز نہیں ہو سکتا . جسٹس عطا بندیال نے مزید استفسار کیا کہ ڈپٹی اسپیکر کو کب بریفنگ ملی تھی؟ تو وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کی ڈپٹی اسپیکر کو بریفنگ کا علم نہیں ، اس پر چیف جسٹس نے کہا اگر آپ کو معلوم نہیں تو اس پر بات نہ کریں .

اس کے بعد اپنی بات جاری رکھتے ہوئے امتیازصدیقی نے کہا کہ وزیراعظم کو تحریک خارج ہونے کا علم ہوا تو انہوں نے اسمبلی تحلیل کر دی ، جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اسمبلی تحلیل نہ ہوتی توایوان ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ ختم کرسکتا تھا ، وزیراعظم نے صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسمبلی تحلیل کی ، اسمبلی نہ توڑی جاتی تو ارکان ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ ریورس کرسکتے تھے، اسپیکر ، ڈپٹی اسپیکر عدالتی جائزے سے بلاتر ہیں کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں .

. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
گزشتہ روز ہوئی سماعت کے دوران صدر مملکت کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے آرٹیکل 184 تھری کے تحت درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھایا ، اپنے دلائل میں انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کے اقدام کا عدالتی جائزہ نہیں لیا جا سکتا ، اس معاملے کا حل نئے الیکشن ہی ہیں ، آرٹیکل 69 عدالت اور پارلیمان کے درمیان حد مقرر کرتا ہے ، آرٹیکل 69 آگ کی دیوار ہے عدالت اس دیوارکوپھلانگ کر پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی .

علی ظفر نے کہا کہ ہمارا آئین پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان ایک حد قائم کرتاہے اگر اس حد کو پار کیا جائے تو تباہی ہوگی اور عوام متاثر ہوگی ، اس لیے پارلیمنٹ عدالت کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرتی اور عدالت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرسکتی . اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جہاں آئین کی خلاف ورزی ہو وہاں بھی مداخلت نہیں کی جاسکتی؟ اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پروسیجر اور آئینی خلاف ورزی میں فرق کرنا پڑے گا ، ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ کے خلاف عدالت سے رجوع پارلیمنٹ میں مداخلت ہے ، اسپیکر کو ہدایات دراصل پارلیمنٹ کو ہدایات دینا ہوگا جو غیرآئینی ہے .

اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے دریافت کیا کہ پارلیمنٹ آئین کی خلاف ورزی کرے کیا تب بھی مداخلت نہیں ہوسکتی؟ صدر مملکت کے وکیل نے کہا کیا غیرآئینی ہے اور کیا نہیں اس پر بعد میں دلائل دوں گا ، جسٹس مقبول باقر نے ریٹائرمنٹ پر اداروں میں توازن کی بات کی تھی ، باہمی احترام سے ہی اداروں میں توازن پیدا کیا جا سکتا ہے ، کسی بھی رکن اسمبلی کی اہلیت کا جائزہ عدالت لے سکتی ہے تاہم پارلیمان کی کارروائی میں مداخلت کی حد کی تشریح عدالت نے کرنی ہے .

اس موقع پر جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ اسپیکر کی رولنگ کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ اس پر وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ اسپیکر کی رولنگ کو ہاؤس ختم کر سکتا ہے . جس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا نکتہ دلچسپ ہے کہ اسپیکر کی رولنگ غلط ہو تو بھی اسے استحقاق ہے، رولنگ کے بعد اسمبلی تحلیل کرکے انتخابات اور عوام کے پاس جانے کا اعلان کیا گیا ہے، ن لیگ کے وکیل سے پوچھیں گے عوام کے پاس جانے میں کیا مسئلہ ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی کہا کہ الیکشن میں جانے سے کسی کے حقوق کیسے متاثر ہو رہے ہیں؟ .

قبل ازیں آج صبح ساڑھے 11 جب سماعت کا آغاز ہوا توجسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ عدالت پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ فیصلہ نہیں کر رہی، یکطرفہ فیصلہ کیسے دے سکتے ہیں؟ جس کے بعد پی ٹی آئی کے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا ایم کیو ایم، ٹی ایل پی ،جماعت اسلامی کیس میں فریق نہیں، راہ حق اور باپ پارٹی بھی پارلیمان کا حصہ ہیں مگرفریق نہیں، ازخودنوٹس کی ہمیشہ عدالت کے اندر اور باہر حمایت کی ہے، عدالت کا مشکور ہوں کہ قوم پر مہربانی کرتے ہوئے نوٹس لیا .

بابر اعوان نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عدالت کو کہا گیا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ بدنیتی پر مبنی ،غیرآئینی ہے، دوسری طرف آرٹیکل 5کے تحت انہیں غدار کہاگیاہے ، درخواست گزاروں نے عدالت سے آرٹیکل 69 اور 95 کی تشریح کی استدعا کی ، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ کسی آرٹیکل کو علیحدہ نہیں دیکھ سکتے مگر آرٹیکل 95 کا خاص مقصد ہے . اس پرپی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ شہباز شریف نے پریس کانفرنس میں کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے، درخواست گزار چاہتے ہیں سلامتی کمیٹی کا حوالہ نظر انداز کیا جائے، اپوزیشن چاہتی ہےعدالت ان کے حق میں فوری مختصرحکم نامہ جاری کرے ، کیا آئین پاکستان کا موازنہ بھارت ، آسٹریلیا یا انگلینڈ کے آئین سے کیا جاسکتا ہے؟ سیاسی جماعت جس کی مرکز ، صوبے ، کشمیر ، جی بی میں حکومت ہے ، یہ کہتے ہیں اس سیاسی جماعت کو نظر انداز کردیں .

انہوں نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ درخواست گزاروں کا دعویٰ ہے وہ جمہوریت بچانے آئے ہیں ، میرا یقین ہے اس مقدمے میں کوئی نقطہ انداز نہیں ہوگا ، کیا پارلیمنٹ کی تمام کارروائی آرٹیکل 69 کی زد میں نہیں؟ حالیہ صورتحال سندھ ہاؤس اورلاہور کے ہوٹل کی وجہ سے پیدا ہوئی ، کیا سندھ ہاؤس اور لاہور کے ہوٹل میں جو ہوا اسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟ کیس میں جس برطانوی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا وہ لاگو نہیں ہوتا ، اراکین کے کردار پر قرآن و سنت اور مفتی تقی عثمانی کا نوٹ بھی دوں گا ، اسپیکر کی رولنگ پر نعیم بخاری دلائل دیں گے .

بابر اعوان نے کہا کہ پاکستان میں ہرشخص پر لازم ہے کہ آئین وقانون کی تابعداری کرے ، ہر شخص آئین اور قانون کے تابع ہے ، شہریوں پر لازم ہے کہ وہ ریاست کے ساتھ وفادار ہوں ، جو باہر سے پاکستان آتے ہیں انہیں بھی حقوق حاصل ہیں ، دیگر ممالک کے آئین میں ایسے حقوق نہیں دیے گئے .  چیف جسٹس نے بابر اعوان سے مکالمے میں کہا آپ کیا یہ اسپیکرکی رولنگ کاپس منظر بیان کر رہے ہیں؟ جس پر بابر اعوان نے جواب دیا کہ جی جناب یہ ہی پس منظر ہے ، اس پر چیف جسٹس نے کہا تو پھر آپ پر لازم ہے کہ اس کاحتمی نتیجہ بھی بتائیں ، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں بظاہر الزامات ہیں کوئی فائنڈنگ نہیں ، کیا اسپیکر حقائق سامنے لائے بغیر ایسی رولنگ دے سکتا ہے؟ یہی آئینی نقطہ ہے جس پر عدالت نے فیصلہ دینا ہے ، کیا اسپیکر آرٹیکل 95 سے باہر جاکر رولنگ دے سکتا ہے جو ایجنڈے پر نہیں؟ اسپیکر کی رولنگ کا دفاع لازمی کریں لیکن ٹھوس مواد پر کریں .

اس پر پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ آپ کو 3 راستے بتائے گئے ، اس پر چیف جسٹس نے بابر اعوان سے مکالمے میں کہا کہ راستے ہمیں نہ بتائیں راستے ہم خود نکل لیں گے ، آپ حقایق بیان کریں جب کہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بھی بابر اعوان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آفیشل معاملات زیربحث لانا ہے تو یہ سیاسی جماعت نہیں کہہ سکتی . اس کے بعد چیف جسٹس نے استفسار کیا وفاقی کابینہ کی میٹنگ کب ہوئی تھی؟ اس پر بابر اعوان نے جواب دیا کہ کابینہ اجلاس کی تاریخ معلوم کرکے بتاؤں گا ، کیا کچھ باتیں ان کیمرا ہو سکتی ہیں؟ فارن آفس نے جو بریفنگ دی وہ عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ، اس پر چیف جسٹس نے بابر اعوان کی ان کیمرا بریفنگ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال خط نہیں مانگ رہے اور ابھی ایسا کچھ نہیں ہے کہ ان کیمرا سماعت کریں .

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے بابر اعوان سے کہا کہ یہ رولنگ سے پڑھ دیں اس میں جو کچھ ہے ، اس پر چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل کا نکتہ بھی صحیح ہے ، ہم بھی فارن پالیسی کے معاملات میں نہیں پڑنا چاہتے ، ہم بھی اسے یہاں ڈسکس نہیں کرنا چاہتے آپ واقعات بتائیں . اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل نے بتایا کہ پی ڈی ایم جماعتوں نے معاملہ پارلیمان میں لانے کا مطالبہ کیا، تمام سیاسی جماعتوں کو تحریری نوٹس دیے گئے ، تفصیل میں گیا توآپ کہیں گے یہ اسپیکر کے وکیل کو کہنے دیں ، اس لیے میں بات اشاروں میں بتا رہا ہوں ، فلاں فلاں مسئلے پر وہ ملک اس ملک کے پرائم منسٹر سے ناراض ہے ، اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو پھر سب ٹھیک ہے ، تحریک عدم اعتماد اگر کامیاب نہ ہوئی تو پھرڈیش ڈیش ڈیش ، 8 مارچ کوتحریک عدم اعتماد آجاتی ہے جس کا ذکر کہیں اور سے آیا .

اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے بابر اعوان نے مزید کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی کا بائیکاٹ کیا ، کمیٹی اجلاس کی تفصیل نعیم بخاری پیش کریں گے ، مشیر قومی سلامتی نے پارلیمانی کمیٹی کو بریفنگ دی تھی ، نیشنل سکیورٹی کونسل کی میٹنگ نے سفارتی احتجاج کا فیصلہ کیا ، کونسل نے قرار دیا پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی گئی .

اس کے بعد بابراعوان نے ترجمان پاک فوج کی نجی ٹی وی سے گفتگو بھی پیش کی ، جس میں ڈی جی ائی ایس پی آر نے کہا تھا کہ جو قومی سلامتی کمیٹی میں کہا گیا وہی ہمارامؤقف ہے اور قومی سلامتی کمیٹی میٹنگ کےاعلامیہ سے متفق ہیں . اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کابینہ نے وزارت خارجہ کی بریفنگ پرکیا فیصلہ کیا؟ اس کے جواب میں پی ٹی آئی کے وکیل نے بتایا کہ مراسلے میں کہا گیا دوسرا ملک ہمارے وزیراعظم سے خوش نہیں ، تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو کیا نتائج ہوں گے .

اس پر ایک بار پھر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مناسب ہوگا خارجہ پالیسی پر بات کسی سیاسی جماعت کا وکیل نہ کرے ، جتنا رولنگ میں لکھا ہوا ہے صرف اتنا ہی پڑھا جائے تو مناسب ہوگا . دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ باتیں اسپیکر کے وکیل کو کرنے دیں، سیکشن 5 کہتا ہے ہر آدمی کوریاست سے وفادار ہونا چاہیے اگر کوئی وفادار نہیں ہے تو ایکشن لیا گیا ، اس الزام کے تحت تحریک کیسے مسترد کی جاسکتی ہے؟ کوئی شبہ نہیں ہر شہری کو ریاست کا وفادار ہونا چاہیے ، جن پر الزام لگایا گیا ان کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا؟ جس پر بابراعون نے بتایا کہ ہماری اسمبلی بھی پارلیمانی کمیٹیز کے ذریعے چلائی جاتی ہے ، حکومت نے ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا ، تحریک انصاف نے ارکان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ، پاکستان سب سے پہلے ہے ، اس لیے وزیر اعظم نے کابینہ میں احتیاط سے کام لیا اور میں بھی احتیاط برت رہا ہو .

اس موقع پر چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بظاہر یہ کیس الزامات کا ہے غلط ہیں یا درست تفصیل میں نہیں جاتے ، آپ آرٹیکل 69 پر آتے ہیں تو ٹھیک ہے ، نہیں آتے تو آپ کی مرضی ہے ، ہمارے شارٹ آرڈر میں پیراگراف 4 اہم تھا ، آپ ہمیں کسی اور طرف لے کر جا رہے ہیں ، کیا معاملہ آرٹیکل 69 کا ہے کہ نہیں؟ ہم نے فارن آئین پرانحصار کرنا ہے کہ نہیں کرنا یہ ہم نے دیکھنا ہے ، ہم نے یہ کیس ختم کرنا ہے، اس کیس میں تاخیر ہمارے لئے مسئلہ بن رہا ہے ، عدالتی حکم میں اہم چیزڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی آئینی حیثیت تھی ، ہم اسپیکر کی رولنگ اور آرٹیکل 69 پر بات کرنا چاہتے ہیں .

اس کے بعد جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ واقعاتی شواہد دے رہے ہیں کہ یہ ہوا تو یہ ہوگا ، ان واقعات کو انفرادی شخصیات سے کیسے لنک کریں گے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس کا مطلب ہے وزیر اعظم کچھ نہیں جانتے ، ابھی تحقیق ہورہی ہے . اس کے جواب میں بابر اعوان نے کہا کہ وزیر اعظم جو جانتے ہیں ملک کے مفاد میں نہیں بول رہے ، وزیر اعظم تفتیشی نہیں ہیں تفتیش تو کوئی تفتیش کار ہی کرے گا .

. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
5 اپریل کو ہونے والی سماعت میں خاتون وکیل افشاں غضنفر نے کہا کہ امریکہ میں پاکستانی سفیر اسد مجید کو بلایا جائے جنہوں نے یہ خط لکھا ہے ، اس موقع پرچیف جسٹس نے کہا کہ محترمہ کیا بات کررہی ہیں ، ایسا ممکن نہیں فی الحال کسی کی انفرادی درخواست نہیں سن رہے ، صرف سیاسی جماعتوں کے وکلاء کو ہی سنیں گے ، بعد ازاں رضا ربانی نے دلائل کا آغاز کیا .

عدالت عظمیٰ میں دلائل دیتے ہوئے پیپلزپارٹی کے وکیل رہنماء رضا ربانی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا میڈیا میں بیان آیا کہ تین ماہ میں انتخابات ممکن نہیں ، کوشش ہے آج دلائل مکمل ہوں اور مختصر فیصلہ آجائے ، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ ہم بھی جلدی فیصلہ چاہتے ہیں لیکن تمام فریقین کا مؤقف سن کر کریں گے . اس پر رضا ربانی نے کہا عدالت نے دیکھنا ہے کہ پارلیمانی کارروائی کو کس حد تک استثنی ہے ، جو کچھ ہوا اس کو سویلین مارشل لاء ہی قرار دیا جاسکتا ہے ، سسٹم نے از خود ہی اپنا متبادل تیارکرلیا جو غیرآئینی ہے ، 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد کی منظوری ہوئی مگر سماعت ملتوی کر دی گئی ، ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ پڑھی اور تمام ارکان کو آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا ، ڈپٹی اسپیکر نے یہ بھی اعلان نہیں کیا کہ تفصیلی رولنگ جاری کریں گے ، ڈپٹی اسپیکر نے کس بنیاد پر رولنگ دی کچھ نہیں بتایا گیا ، ڈپٹی اسپیکر کے سامنے عدالتی حکم تھا اور نہ ہی سازش کی کوئی انکوائری رپورٹ تھی .

رضا ربانی نے مزید کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے تحریری رولنگ دے کر اپنی زبانی رولنگ کو غیر مؤثر کر دیا ، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین کے خلاف ہے ، عدم اعتماد پر ووٹنگ صرف وزیراعظم کے استعفے پر ہی روکی جا سکتی ہے ، صدر مملکت از خود بھی وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتے ہیں ، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ تک وزیراعظم اسمبلی بھی تحلیل نہیں کرسکتے ، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے تک اجلاس غیرمعینہ مدت تک ملتوی نہیں ہوسکتا ، آرٹیکل 95 کو اسپیکر غیر موثر نہیں کر سکتا ، اسپیکر ہمیشہ ہی حکومتی جماعت کا ہوتا ہے .

پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنماء نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ عدالت نے رولنگ درست قرار دی تو آئندہ کبھی تحریک عدم اعتماد نہیں آ سکے گی ، آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمانی کارروائی کو استثنی حاصل ہوتا ہے ، اسپیکر کارروائی چلانے کیلئے جو فیصلہ کرے اسے تحفظ حاصل ہوگا ، آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی اور رولنگ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں بنتا ، ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل 5 کی تشریح کرکے ارکان پر اطلاق کردیا .

اس موقع پر انہوں نے لارجر بینچ کے سامنے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ اسپیکر کی رولنگ کا آرٹیکل 95 (2) کے تحت جائزہ لیا جا سکتا ہے ، عدالت سے ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے آرٹیکل 5 اور 95 کی تشریح کا جائزہ لینے کی استدعا کرتے ہیں ، وزیراعظم ووٹنگ سے قبل ہی اکثریت کھو چکے تھے ، وزیراعظم کہہ چکے ہیں کہ انہیں تحریک عدم اعتماد اور استعفیٰ اور الیکشن کے آپشن دیئے گئے تھے ، اسٹیبلشمنٹ نے وزیراعظم کو پیشکش کئے جانے کی تردید کی تھی ، اس لیے عدالت اسپیکر کی رولنگ غیرآئینی قرار دے ، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے منٹس اور خط منگوائے جائیں ، عدالت اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دے کر اسمبلی کو بحال کرے .

رضا ربانی کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کیا ، انہوں نے کہا کہ 28 مارچ کو وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری دی گئی ، 3 اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا تھی . اس کے بعد عدالت نے 31 مارچ کی اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ فوری طلب کرلیا ، عدالت نے اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری کو ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت بھی کردی .

اپنے دلائل میں ن لیگی وکیل نے مزید کہا کہ 3 اپریل کو جو ہوا پوری قوم نے دیکھا ، سارا مقدمہ ہی ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا ہے ، معاملہ اسمبلی قواعد پر عملدرآمد کا نہیں بلکہ آئین کی خلاف ورزی کا ہے ، اکثریت نہ ہونے کے باوجود وزیراعظم کا رہنا جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے . اس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ تحریک عدم اعتماد پر کب کیا ہونا ہے یہ رولز میں ہے آئین میں نہیں؟ اس کے جواب میں ن لیگی وکیل نے کہا کہ رولز بھی آئین کے تحت ہی بنائے گئے ہیں ، پارلیمانی کارروائی میں ہونے والی بے ضابطگی کو آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے ، اسپیکر کی غیرآئینی رولنگ کو آرٹیکل 69 کا تحفظ حاصل نہیں ہوتا ، ڈپٹی اسپیکر نے لکھی ہوئی رولنگ پڑھی جس کے نیچے اسپیکر کے دستخط بھی ہیں .

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر اسپیکر نے اختیارات ڈپٹی اسپیکر کو تقویض نہیں کیے تو یہ قواعد کی خلاف ورزی ہوگی یا نہیں؟ اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ اسپیکر نے رولنگ کی تصدیق کی ہے ، معلوم نہیں کہ اسپیکر نے اختیارات ڈپٹی اسپیکر کو منتقل کیے تھے یا نہیں . اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ نعیم بخاری اس نکتے پرعدالت کی معاونت کریں گے .

. .

متعلقہ خبریں