معاشی اعتبار سے وزیراعظم عمران خان کے 3 سال

(قدرت روزنامہ)ابھی کچھ دیر قبل کراچی کے ساحل پر پھنسے بحری جہاز کی کوریج کرکے لوٹا ہی تھا کہ اسلام اباد سے پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے متعلق خبر آن پہنچی . نیوز روم میں ایک مرتبہ پھر عمران خان کی معاشی پالیسیوں پر بات چیت ہونے لگی، ایسے میں اچانک فضل صاحب کو یاد آیا کہ عمران خان نے 3 سال قبل اگست کے مہینے میں اپنی 22 سالہ جدوجہد کے بعد ملک کے 22ویں وزیرِاعظم کے طور پر حلف اٹھایا تھا اور 8 اگست کو انہیں عہدہ سںنبھالے 3 سال مکمل ہورہے ہیں، تو انہوں نے اپنے مخصوص عاجزانہ انداز میں حکم دیتے ہوئے کہا کہ راجہ صاحب ملکی معیشت پر ہی کچھ ہوجائے .

فضل صاحب کا عاجزانہ حکم سُن کر میں اس سوچ میں پڑگیا کہ کیا کروں؟ کیا معیشت کا جائزہ موجودہ حکومت کے گزشتہ سالوں سے کروں یا اس وقت سے کروں جب عمران خان بلند و بانگ دعوؤں کے ساتھ وزیرِاعظم بنے تھے اور 'نئے پاکستان' کی پہلی اینٹ رکھی گئی تھی کہ جس کے بعد معیشت کی تو جیسے اینٹ سے اینٹ ہی بجادی گئی ہو . اگر آپ کو میری بات سے اختلاف ہو تو کوئی بات نہیں خود حکومتی اعداد و شمار سے جائزہ لے لیتے ہیں کہ کیا معیشت سال 2018ء کی سطح سے اوپر گئی ہے یا ترقی نے الٹا سفر طے کیا ہے . عمران خان نے 3 سال قبل اگست کے مہینے میں اپنی 22 سالہ جدوجہد کے بعد ملک کے 22ویں وزیرِاعظم کے طور پر حلف اٹھایا تھا بہت سے بڑے بڑے صنعت کاروں نے عمران خان کی سابقہ ویڈیوز مجھے بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، شاید وہ عمران خان کے حکومت میں آنے سے قبل کے دعوؤں اور وعدوں کو ذہن میں تازہ کرتے رہتے ہیں جیسے احتساب اور تبدیلی کا عمل حکومت بننے کے پہلے 6 ماہ میں مکمل ہوگا، پہلے 6 ماہ میں 6 ہزار ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا جائے گا، یومیہ ہونے والی چوری رُکے گی جس سے عام آدمی کو فائدہ ہوگا، مہنگائی کم ہوگی اور روپے کی قدر میں استحکام ہوگا، بجلی کے بلوں میں کمی ہوگی، 50 لاکھ گھروں کے ساتھ 5 کروڑ نوکریاں بھی فراہم کریں گے، گورنر اور وزیر اعلی ہاؤسز، وزیر اعظم ہاؤس اور ایوانِ صدر کو تعلیمی اداروں میں تبدیل کریں گے، پروٹوکول کا خاتمہ ہوگا اور تمام وزیر مشیر عام آدمی کی طرح سفر کریں گے . تو یہ وہ دعوے اور وعدے تھے جو حکومت میں آنے سے قبل کیے گئے تھے مگر کیا کریں اقتدار کی کرسی ہی ایسی ہے کہ انسان کی سوچ یکسر بدل جاتی ہے . مہنگائی اب مہنگائی ہی کو لے لیں، کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے . اسٹیٹ بینک کے مطابق ملک میں مہنگائی کی شرح گزشتہ حکومت سے زیادہ رہی ہے . مہنگائی کی شرح کم دکھانے کے لیے موجودہ حکومت نے قیمتوں کے تعین کا سال 2007ء سے تبدیل کرکے 2015ء کردیا . اگرچہ اس سے بظاہر تو مہنگائی میں کسی قدر 'کمی' محسوس ہوئی مگر عوام ہی جانیں کہ ان کی جانوں پر کیا گزری ہے کہ جب فی کلو گرام آٹا 45 روپے سے بڑھ کر 70 سے 75 روپے اور بعض علاقوں میں 80 روپے تک کی قیمت پر فروخت ہورہا ہو . اسی طرح چینی کی فی کلو گرام قیمت 65 روپے سے بڑھ کر 100روپے سے تجاوز کرگئی مگر چینی پر 65 روپے فی کلو گرام کے حساب سے ہی ٹیکس لیا گیا . اس طرح 35 روپے فی کلو گرام چینی کی قیمت پر ٹیکس کی چھوٹ دی گئی اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی . سال 2017ء سے اب تک مہنگائی کا جائزہ اس ٹیبل میں دیکھ لیں . ٹیکس کے حصول کا معاملہ معاشی دنیا میں افراطِ زر کو بدترین ٹیکس inflation worst Taxation کہا جاتا ہے . کسی بھی طرح کا ٹیکس ہو وہ حقیقی عدد کے بجائے فیصد میں لگایا جاتا ہے . یعنی جتنی مہنگائی بڑھے گی اسی حساب سے ٹیکس بھی بڑھے گا . مگر ملک میں مہنگائی میں اضافے کے باوجود ٹیکس کی شرح نہیں بڑھ سکی اور حکومت نئے ٹیکس دہندگان بڑھانے میں ناکام نظر آتی ہے . سال 19ء-2018ء میں سابقہ حکومت نے 3 ہزار 842 ارب کا ٹیکس جمع کیا تھا . موجودہ حکومت نے متعدد مرتبہ ٹیکس کے بڑے بڑے اہداف رکھے مگر انہیں پورا کرنے میں ناکام رہی . 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال کے دوران حکومت نے 4 ہزار 725 ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا جو نظر ثانی شدہ ہدف سے زیادہ ہے . وزیرِاعظم عمران خان اور موجودہ وزیرِ خزانہ شوکت ترین مہنگائی کی وجہ روپے کی قدر میں تیزی سے ہونے والی گراوٹ کو قرار دیتے ہیں جو کسی حد تک درست بات بھی ہے . مگر اس روپے کی قدر میں گراوٹ جس نے کی وہ تو تاحال اپنے عہدے پر موجود ہے اور یہ گراوٹ ابھی تک تھمی نہیں ہے . عمران خان کے وزیرِاعظم بننے سے قبل روپے کی قدر ایک ڈالر کے مقابلے 124روپے تھی مگر دسمبر تک ایک ڈالر 138روپے کا ہوگیا . روپے کی قدر تیزی سے کم ہوتے ہوئے جون 2020ء میں ایک ڈالر 167روپے 20 پیسے تک گر گیا . بعدازاں روپے کی قدر میں کسی حد تک بہتری لائی گئی مگر اب جب پاکستان کو چند ماہ بعد آئی ایم ایف کے پاس جانا ہے تو روپے کی قدر دوبارہ 161 روپے سے تجاوز کرچکی ہے . روپے کی قدر میں گراوٹ سے برآمدات میں اضافے کی نوید سنائی گئی مگر تجارتی خسارے میں کسی طور پر بھی کمی دیکھنے کو نہیں ملی . مالی سال 20ء-2019ء میں کورونا کی وجہ سے جب پوری دنیا بندشوں کا شکار تھی ایسے میں تجارتی خسارے میں نمایاں کمی ہوئی اور یہ خسارے 20 ارب روپے تک پہنچ گئے . مگر اس کے ساتھ ہی بڑی صنعتوں کی پیداوار بُری طرح متاثر ہوئی . مگر پاکستانی صنعتوں کی کارکردگی میں کمی کی وجہ صرف کورونا کو قرار نہیں دیا جاسکتا تھا کیونکہ کورونا سے قبل بھی پاکستانی صنعتوں کی پیداوار منفی نظر آرہی تھی . مالی سال 19ء-2018ء میں صنعتی پیداوار 1.56 فیصد اور مالی سال 20ء-2019ء میں 3.77 فیصد منفی رہی . گزشتہ سال بجلی کے نرخ سمیت دیگر معاملات میں ریلیف دیے جانے کے بعد صنعتوں میں بہتری دیکھی جارہی ہے . مگر ساتھ ہی تجارتی خسارے میں اضافہ بھی ہورہا ہے جس سے کرنٹ اکاؤنٹ جو گزشتہ سال سرپلس تھا ایک مرتبہ پھر منفی ہوتا جارہا ہے اور اس کے باعث روپے کی قدر بھی دباؤ کا شکار ہے . . .

متعلقہ خبریں