ہم اکیلے افغانستان کے ٹھیکیدار نہیں، شاہ محمود

اسلام آباد (قدرت روزنامہ) وزیر خارجہ شاہ محمد قریشی نے کہا ہے کہ ہم اکیلےافغانستان کے ٹھیکیدار نہیں . نجی ٹی وی کے مطابق افغانستان کی صورتحال سنگین ہورہی ہےاس کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانا جائز نہیں .

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ امریکی سپوکس پرسن کہہ رہے ہیں پاکستان ہمارا تعمیری شراکت دار ہے ، افغانستان میں دونوں کی منزل ایک ہے ،پوری دنیا ہمارے موقف کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے ، وزیراعظم عرصہ سے یہی بات کررہے ہیں ،اگر افغانستان کے حالات 90 کی دہائی کی طرف جاتے ہیں تو ہمارے مسائل میں بھی اضافہ ہوگا،ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں استحکام چاہتے ہیں، ہم اپوزیشن کی ہر قابلِ عمل تجویز کو صدق دل سے قبول کریں گے . جمعہ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کا پہلا اجلاس چیئرپرسن سینیٹر شیریں رحمان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں چیئرپرسن سینٹ قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ نے وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف اور دیگر اراکین کمیٹی کو خوش آمدید کہا . وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے سینٹ قایمہ کمیٹی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ میں سینیٹر مشاہد حسین سید صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے اس کمیٹی کو بہترین انداز میں چلایا، میں چاہتا ہوں کہ شریں رحمان انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کمیٹی کو چلائیں گی . انہوںنے کہاکہ میں چیئرمین اور ممبران اسٹینڈنگ کمیٹی کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے مدعو کیا اور گفتگو کا موقع دیا . وزیر خارجہ نے کہاکہ کچھ عرصہ قبل وزارت خارجہ میں تمام پارلیمانی رہنماؤں کو افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال پر بریفنگ دی گئی . انہوںنے کہاکہ اسی اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ اداروں کی جانب سے ممبران پارلیمان کو خطے کی صورتحال پر بریفنگ دی جائے . انہوںنے کہاکہ پارلیمانی رہنماؤں کی خواہش پر اداروں کی جانب سے پارلیمنٹ میں 8 گھنٹے کی مفصل بریفنگ دی گئی لیکن اس نشست میں صرف افغانستان پر گفتگو ہو سکی . وزیر خارجہ نے کہاکہ کوشش ہے کہ دوسری نشست عید الاضحی سے قبل ہو سکے . انہوںنے کہاکہ آج امریکہ کے سپوکس پرسن کہہ رہے ہیں کہ پاکستان ہمارا تعمیری شراکت دار ہیں،ان کے مطابق افغانستان میں ان کی اور پاکستان کی منزل ایک ہے . انہوںنے کہاکہ تیسری بات وہ پاکستان محض افغانستان کی Prism سے نہیں دیکھنا چاہتے،وہ چاہتے ہیں کہ 31 اگست تک افغانستان سے انخلاء مکمل ہو جائے گا لیکن پاکستان اور خطے کے ساتھ امن کیلئے ایک رشتہ استوار رہے،ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں . وزیر خارجہ نے کہاکہ پوری دنیا ہمارے موقف کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے ،یہی بات عرصہ دراز سے وزیر اعظم عمران خان کہہ رہے ہیں، انخلا کے فیصلے پر ان کا بائی پارٹیزن اتفاق ہے، ہماری سوچ تھی کہ انخلاء ذمہ دارانہ ہو تاکہ کوئی منفی قوت خلا سے فائدہ نہ اٹھائے . انہوںنے کہاکہ ہم چاہتے تھے کہ انخلاء اور افغان امن عمل کو ساتھ ساتھ جاری رہنا چاہئے، ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنا مقصد حاصل کر لیا ہے،ان مقاصد کو صدر بائیڈن نے بیان کیا ہے،ان کے مطابق ان کا مقصد 9/11 کے ذمہ داران کو کیفرکردار تک پہنچانا تھا جو مکمل ہوا، ان کا مقصد افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کو اتنا کمزور کرنا تھا کہ وہ آیندہ کسی اور کو نشانہ نہ بنا سکیں _وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ھدف انہوں نے حاصل کر لیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہم افغانستان میں نیشن بلڈنگ کیلئے نہیں گئے تھے افغانستان کا مسئلہ افغانوں نے مل بیٹھ کر حل کرنا ہے اور ہم بھی یہی کہہ رہے ہیں، ان کا نکتہ نظر یہ ہے کہ کہ انخلاء کے بعد بھی وہ انسانی بنیادوں پر معاونت جاری رکھیں گے . انہوںنے کہاکہ وہ ڈپلومیٹک موجودگی رکھنا چاہتے ہیں ، وہ کابل ایرپورٹ کی سیکورٹی کیلئے معاونت فراہم کرنے کا عندیہ بھی دے رہے ہیں . انہوںنے کہاکہ انہوں نے زلمے خلیل زاد کو ہدایت کی ہے کہ وہ جامع مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کے سیاسی حل کیلئے روابط جاری رکھیں گے، میری سیکرٹری خارجہ بلنکن سے بات متوقع ہے، میں ان کے سامنے پاکستان کا نکتہ نظر رکھوں گا، امریکہ نے اپنے سابقہ حلیفوں کو تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے، دوحہ معاہدے اور بین الافغان مذاکرات کے حوالے سے پاکستان کے کردار کو سراہا جا رہا ہے ، دوحہ معاہدے میں طالبان نے انخلاء کے دوران حملہ نہ کرنے کا وعدہ کیا اور انہوں نے اس معاہدے کی پاسداری کی، جسے امریکہ تسلیم کرتا ہے، ان کے مطابق تین علاقے ایسے ہیں جہاں ٹیررازم پنپ سکتا ہے جس میں مڈل ایسٹ، افریقہ اور جنوبی ایشیا شامل ہیں، ان خطرات سے نمٹنے کیلئے وہ حکمت عملی بنا تشکیل دے رہے ہیں . وزیر خارجہ نے کہاکہ انہیں اپنی اسٹریٹیجک مسابقت چین سے دکھائی دے رہی ہے، اس سارے تناظر میں پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنا ہے . انہوںنے کہاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہماری معیشت کو ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے ہم نے ستر ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے، ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھاری قیمت چکائی ہے، اگر افغانستان کی صورتحال خراب ہوتی ہے اور حالات 90 کی دہائی کی طرف جاتے ہیں تو ہمارے مسائل میں بھی اضافہ ہوگا،مزید مہاجرین کے آنے کا خطرہ بھی موجود ہے . وزیرخارجہ نے کہاکہ ہم بارڈر فینسنگ بھی کر رہے ہیں اور بارڈر کو محفوظ بنا رہے ہیں، ہم ایران ماڈل کو بھی زیر غور لا رہے ہیں،ہم ماضی سے سبق سیکھ کر مستقبل کی حکمت عملی بنا رہے ہیں، وزیر خارجہ نے کہاکہ ہم مختلف ethnic groups کے قائدین سے ملے ہیں ہمارا افغانستان میں کوئی فیورٹ نہیں ہے، ہم افغانستان میں امن کیلئے ذریعے سنٹرل ایشیا تک اقتصادی روابط کا فروغ چاہتے ہیں . انہوںنے کہاکہ میری انطالیہ میں ایرانی وزیر خارجہ سے ملاقات ہوئی ان کے خیالات سنے اور عبداللہ عبداللہ جو مفاہمتی کونسل کے چیئرمین ہیں ان کے خیالات کو بھی جانا . انہوںنے کہاکہ پاکستان کی افغانستان پر پالیسی واضح ہے کہ ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں استحکام چاہتے ہیں، ہم اپوزیشن کی ہر قابلِ عمل تجویز کو صدق دل سے قبول کریں گے . وزیر خارجہ نے کہاکہ جلسوں میں آجکل بڑے بڑے قائدین منفی بیانات دے رہے ہیں ہم جواب دے سکتے ہیں تاہم ہم چاہیں گے کہ قومی سلامتی کے ایشوز پر باء پارٹیزن اپروچ رکھی جائے . . .

متعلقہ خبریں