طالبان کے دوبارہ سَر اٹھانے کے بعد افغانستان کا کیا ہوگا؟

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)افغان حکومت اس وقت شدید مشکلات کا شکار ہے اور طالبان کے حملے کو روکنے سے قاصر رہنے کے بعد ان کی سیکیورٹی فورسز تباہ ہوچکی ہیں۔فرانسیسی خبررساں ادارے ‘اے ایف پی’ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی پریشانیوں میں اضافہ کرتے ہوئے واشنگٹن نے کابل سے اپنے شہریوں کے انخلا کے منصوبوں کا اعلان کردیا ہے جو لگ بھگ 2 دہائیوں تک جاری رہنے والے تنازع کے بعد امریکی موجودگی کا علامتی اور بدنظمی کا شکار اقتدار کا خاتمہ ہے۔

افغانستان کے شہروں اور دیہی علاقوں کی بڑی اکثریت پر طالبان کا قبضہ ہونے کے ساتھ اور افغان سیکیورٹی فورسز کو بڑی حد تک شکست ہونے کے بعد ذیل میں کچھ سوالات اور ان کے جوابات موجود ہیں جو موجودہ صورتحال کی وضاحت کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔طالبان یہ کہنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے کہ وہ کیا چاہتے ہیں، اپنی امارات اسلامی کی مکمل بحالی، جس نے 1996 سے 2001 تک افغانستان پر حکومت کی تھی۔

بہت سے تجزیے اور غور و فکر کو اس کے لیے وقف کیا گیا تھا کہ وہ اپنے مقصد کو کس طریقے سے حاصل کریں گے، بات چیت، طاقت کے استعمال، یا دونوں کے مرکب کے ذریعے حاصل کریں گے؟آخر میں، ان کی ملٹری حکمت عملی کافی ثابت ہوئی، انہوں نے افغانستان بھر میں اہداف پر کثیر الجہتی حملوں سے حکومتی افواج کو زیر کرنا شروع کیا۔ایسا کرنے کے لیے سب سے پہلے امریکا کا میدان سے جانا ضروری تھا جو انہوں نے جنگ سے خستہ حال واشنگٹن کے ساتھ ایک معاہدہ کرکے کیا اور عہد کیا کہ وہ انخلا کے بدلے امریکی اہداف کا نشانہ نہیں بنائیں گے۔

معاہدے کے ایک حصے کے ذریعے واشنگٹن نے افغان حکومت پر طالبان کے ہزاروں قیدیوں کو رہا کرنے پر دباؤ ڈالا، جن میں سے بیشتر فوری طور پر اس لڑائی میں شامل ہوگئے۔گزشتہ 8 روز میں ہونے والی کامیابیوں کے بعد، اب طالبان کو اعتماد ہو سکتا ہے کہ وہ حکومت کو غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کی پیشکش کرسکتے ہیں۔اگر کابل انکار کرتا ہے تو امکان ہے کہ طالبان طاقت کے ساتھ افغان دارالحکومت کی جانب بڑھیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس موضوع پر کتابیں شائع کی جائیں گی اور دہائیوں نہیں تو کئی سالوں تک لیکچر دیے جائیں گے مگر افغان سیکیورٹی فورسز کے ساتھ اصل میں کیا غلط ہوا؟ بدعنوانی، لڑنے کی خواہش کا فقدان اور امریکی انخلا سے پیدا ہونے والے خلا نے ممکنہ طور پر افغان فوج کی قوت کے خاتمے میں کردار ادا کیا۔

کئی سالوں سے امریکی حکومت، افغان سیکیورٹی فورسز میں وسیع پیمانے پر کرپشن کی تفصیلات پر مبنی رپورٹس جاری کرتی رہی ہے۔کمانڈرز نے معمول کے مطابق اپنے فوجیوں کے لیے پیسے نکالے، بلیک مارکیٹ میں اسلحہ فروخت کیا اور اپنی صفوں میں فوجیوں کی تعداد کے بارے میں جھوٹ بولا۔ افغان فورسز مکمل طور پر اپنے ساز و سامان سے لے کر دیکھ بھال اور فضائی حملوں تک امریکا کی فضائی طاقت پر انحصار کرتی تھیں۔مذکورہ معاملات میں مزید خرابی اس لیے آئی کہ سیکیورٹی فورسز کو کبھی بھی مؤثر قیادت نہیں ملی۔

انہیں صدارتی محل میں موجود شہریوں کی جانب سے مختصر پیمانے پر منظم کیا جاتا تھا جنہیں کچھ فوجی تجربہ حاصل تھا یا عمر رسیدہ جنرلز کی جانب سے نظر انداز کیا گیا تھا جو بڑی جنگ کے بجائے، معمولی سیاسی لڑائیوں میں زیادہ ملوث نظر آئے۔ امریکی تربیت یافتہ کمانڈو یونٹس افغان سیکیورٹی فورسز کی اُمید تھے لیکن آخر میں وہ ان جھڑپوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی نہیں تھے۔

موجودہ حالات میں اس وقت افغانستان میں طالبان کی بالادستی ہے۔حکومت کے پاس اب صرف تین بڑے شہروں کا کنٹرول ہے اور دارالحکومت کے کامیاب دفاع کے لیے لاجسٹکل افرادی قوت باقی رہنے کا امکان نہیں۔

طالبان تیزی سے کابل کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اطلاعات ہیں ان کے جنگجو دارالحکومت کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں پیشرفت کررہے ہیں۔ امریکا اور عالمی برادری ممکنہ طور پر طالبان اور افغان حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ کسی قسم کے معاہدے پر پہنچ جائیں لیکن بالآخر سب کچھ طالبان کے ہاتھ میں ہے۔