’’کل حکومت نیب کو ہی ختم کردے تو کیا آپ نیب بنوانے کیلئے آئیں گے؟‘‘

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)جسٹس منصورعلی شاہ نے وکیل تحریک انصاف سے پوچھا کہ کل حکومت نیب کو ہی ختم کردے تو کیا آپ نیب بنوانے کیلئے آئیں گے؟سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف چئیرمین تحریک انصاف عمران خان کی درخواست پرسماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال نے کہا کہ کیا نیب میں مزید کوئی ترامیم بھی ہوئی ہیں؟وکیل عمران خان خواجہ حارث نے جواب دیا کہ کل نیب قانون میں مزید ترامیم کی گئی ہیں۔ نیب اہم فریق ہے اس کی نمائندگی بھی ہونی چاہیے۔
خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ نئی ترامیم کا مسودہ کل عدالت میں جمع کروا دیا ہے۔ نیب قانون میں کل ہونے والی ترامیم بھی چیلنج کریں گے۔جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ نئی ترامیم چیلنج کرنے کیلئے درخواست میں ترامیم کرنی ہوگی۔وکیل عمران خان نے کہا کہ نئی ترامیم قانون بن جائیں تو ہی چیلنج کریں گے۔ کیس کی بنیاد وہی رہے گی اپنے دلائل کا آغاز کردوں گا۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ کیا وفاقی حکومت تحریری جواب جمع کروائے گی؟ جس پر سرکاری وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ عدالت حکم دے تو جواب ضرور جمع کرائیں گے۔وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ نئی ترامیم ابھی تک قانون کا حصہ نہیں بنیں۔ نئی ترامیم جب تک قانون نہ بن جائیں اس پر کوئی مؤقف نہیں دے سکتا۔
سپریم کورٹ نے نیب ترامیم پر نیب سے جواب طلب کرتے ہوئے پوچھا کہ نیب کے نمائندہ کدھر ہے؟وکیل نیب نے جواب دیا کہ نیب اس کیس میں اٹارنی جنرل کے دلائل کو فالو کرے گا جس پرجسٹس اعجازالااحسن نے کہا کہ نیب کا پراسیکیوٹرجنرل ہے وہ دلائل دیں تو مناسب نہ ہوگا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ٹھیک ہے نیب ترامیم پراپنا تحریری جواب دے دیں۔ نیب قانون میں بہت ساری ترامیم کی گئی ہیں۔ نیب قانون میں کی گئی ترامیم اچھی بھی ہیں۔وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ موجودہ ترامیم آئینی مینڈیٹ کی خلاف ورزی ہے جس پرچیف جسٹس آف پاکستان نے جواب دیا کہ انتخابات بھی احتساب کی ایک شکل ہے۔ الیکشن میں ووٹر اپنے نمائندوں کا احتساب کرتے ہیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت آئینی ترمیم کو بنیادی ڈھانچہ سے متصادم ہونے پر کالعدم ہو سکتی ہے۔جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آزاد عدلیہ آئین کے بنیادی ڈھانچہ میں شامل ہے۔ نیب ترامیم سے عدلیہ کا کون سا اختیار کم کیا گیا۔
وکیل تحریک انصاف نے کہا مہ گڈ گورننس کیلئے احتساب ضروری ہے۔ احتساب کے بغیرگڈ گورننس کا تصورنہیں ہو سکتا۔جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ یہاں مقدمہ قانون میں متعارف ترامیم کا ہے۔ سوال یہ اٹھایا گیا ہے کہ ترامیم اپ ٹو دے مارک نہیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ نیب ترامیم سے زیر التواء مقدمات غیرمؤثر ہوگئے۔ عدالت کے فیصلہ موجود ہے پارلیمنٹ کا قانون بنانے کا کہا گیا۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیا احتساب پارلیمانی جمہوریت کا حصہ ہے۔ آپ کا مؤقف ہے نیب ترامیم سے احتساب کے اختیارات کو کم کردیا گیا۔خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ سپریم کورٹ نے گڈ گورننس کو بھی بنیادی حق قراردیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ کچھ ترامیم کو ایک لیول تک لانے کا کہہ رہے ہیں۔ کل حکومت نیب کو ہی ختم کردے تو کیا آپ نیب بنوانے کیلئے آئیں گے؟ کیا عدالت پارلیمان کو ہدایات دے سکتی ہے؟وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ عدالت نے بہت سے مقدمات میں پارلیمان کو قانون بنانے کی ہدایات کی ہیں۔ قتل کے جرم کو ختم کردیا جائے تو یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تصور ہوگی۔ سپورٹ نے اسفند یار کیس کرپشن کو معاشرے کا ناسور قرار دیا ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ نیب ترامیم سے اختیارات کے ناجائز استعمال اورآمدن سے زائد اثاثوں کے کیسز ختم ہوچکے۔چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ کیا آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس احتساب کیلئے ضروری ہے؟ چھوٹی چھوٹی ہائوسنگ سوسائٹیز میں لوگ ایک دو پلاٹوں کے کیس میں گرفتار ہوئے۔ پہلے ہرمقدمہ انسداد دہشتگردی کی عدالت میں جاتا تھا۔خواجہ حارث نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دے کر انسداد دہشت گردی عدالت سے بوجھ کم کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کوئی منصوبہ ناکام ہونے پر مجاز افسران گرفتار ہوجاتے تھے۔ گرفتاریاں ہوتی رہیں تو کون سا افسرملک کیلئے کوئی فیصلہ کرے گا۔ نیب ترامیم کے بعد فیصلہ سازی پر گرفتاری نہیں ہوسکتی۔ نیب ترامیم سے کوئی جرم بھی ختم نہیں ہوا۔خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ ترامیم کے بعد تمام مقدمات عدالتوں سے خارج ہو جائیں گے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کی دلیل ہے کہ آمدن سے زائد اثاثے کو قابل احتساب بنانا بنیادی حقوق میں شامل ہے۔ اچھی طرزحکمرانی، احتساب بنیادی حقوق میں شامل ہیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نیب قانون میں ترمیم کے ذریعے فیصلہ سازی کے اداروں کی پکڑ نہیں ہوسکتی، اگر کوئی سول سرونٹ پیسے بناتا ہے تو اس سے آج بھی پوچھ گچھ ہو سکتی ہے۔ اگر فیصلہ سازاداروں پر پکڑ دھکڑ ہوئی تو کوئی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے ہی نہیں آئے گا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نیب ترمیمی قانون میں کہا گیا آمدن سے زائد اثاثہ جات کی تعریف کا اطلاق 1985 سے ہوگا۔ مطلب یہ ہوا قانون دہائیاں پہلے بنا تعریف اب ہوئی۔ ایسے میں پلی بارگین کے ذریعے قومی خزانے میں جمع کرائی گئی رقم واپسی کا مطالبہ شروع ہو جائے گا۔ کیا قانون بنا کر مخصوص افراد کو ایمینسٹی دی جا سکتی ہے۔
سماعت کے دوران حضرت عمرفاروق ( رضی اللہ عنہ ) کا ذکر
خواجہ حارث نے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثہ جات کا سوال تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بھی ہوا تھا۔ نیب قانون بنا کرزیادتی ہوئی ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ محض زیادتی پرقانون کو اڑایا نہیں جا سکتا۔ پارلیمنٹ عوام کی منشا کا عکاس ہے۔ پارلیمنٹ سپریم نہیں ہے۔ درست بات ہے پارلیمنٹ آئین کے تابع ہے۔ آپ کی دلیل ہے کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے متصادم ترامیم نہیں ہوسکتیں۔ میں ذاتی طور پراس دلیل سے متفق نہیں ہوں۔خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ یہ بحث پوری دنیا میں جاری ہے کہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہوتا ہے یا نہیں۔کیس کی سماعت 19 اگست تک ملتوی کردی گئی۔