چقندر کا رس ٹائپ 2 ذیابیطس کے مریضوں کے لیے کتنا مؤثر ہوسکتا ہے؟

پورٹس ماؤتھ(قدرت روزنامہ) سائنس دان ایک نئی تحقیق شروع کرنے جارہے ہیں جس میں وہ یہ مطالعہ کریں گے کہ چقندر کا رس پی کر ٹائپ 2 ذیابیطس کے مریضوں سے چکنائی کتنے مؤثر انداز میں کم کی جاسکتی ہے۔محققین نے جانوروں پر کیے جانے والے گزشتہ مطالعوں میں یہ بتایا تھا کہ نائٹریٹ چکنائی کے سفید خلیوں کو بھورے خلیوں میں تبدیل کرسکتے ہیں جن کو ختم کرنا آسان ہوتا ہے۔
لیکن اب یونیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ اور بورن ماؤتھ یونیورسٹی کی محققین کی ٹیم نائٹریٹ سے بھرپور چقندر کے رس کو پینےسے انسانوں پر مرتب ہونے والے اثرات کا معائنہ کریں گے۔
یونیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ کے اسکول آف اسپورٹس، ہیلتھ اینڈ ایکسرسائز سائنس کے ڈاکٹر اینٹ شیفرڈ کا کہنا تھا کہ انسانوں اور اکثر دیگر مملیوں میں دو قسم کے چکنائی کے خلیے ہوتے ہیں۔ چکنائی کے سفید خلیے توانائی کو ذخیرہ کرتے ہیں اور بھورے خلیے حرارت پیدا کرنے کے لیے اس توانائی کا استعمال کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چکنائی کے بھورے خلیوں کو ختم کرنا کافی آسان ہوتا ہے لہٰذا محققین یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اگر نائٹریٹ ان چکنائی کے سفید خلیوں کو بھورے خلیوں میں بدلنے میں مدد دے سکتے ہیں تو کیا لوگوں کو مزید کیلوریز کم کرنے میں مدد مل سکے گی۔
محققین فی الحال ٹائپ 2 ذیابیطس میں مبتلا رضا کار تلاش کر رہے ہیں۔ یہ ایک دائمی بیماری ہوتی ہے جو انسانی جسم کی بلڈ شوگر کی سطح پر نگرانی کو روک دیتی ہے۔ تحقیق میں شامل شرکاء کو روزانہ 14 دن تک دو علیحدہ دورانیوں میں آدھا گلاس جوس پینے کا کہا جائے گا۔ایک دورانیے میں چقندر کا رس پلایا جائے گا جبکہ دوسرے دورانیے کوئی دوسرا فرضی رس(پلیسیبو) پلایا جائے گا جس کا ذائقہ بالکل چقندر کے رس کی طرح ہی ہوگا۔
دو ہفتوں کے بعد تمام شرکاء بورن ماؤتھ کی ریسرچ فیسیلٹی کا دورہ کریں گے جہاں یہ جاننے کے لیے ان کا ایم آر آئی کیا جائے گا کہ ان کے جسم میں کتنے چکنائی کے بھورے خلیے موجود ہیں۔