بہن یہ تمہاری شادی کے لیے پیسے ہیں میں نہ رہا تو اس کا استعمال کرنا ۔۔؟

(قدرت روزنامہ)جوان مردی، ہمت اور حوصلہ ویسے تو اکثر میں ہو سکتا ہے مگر یہی ہمت اور حوصلہ اس وقت تبدیل ہو جاتا ہے جب آپ کسی پُر خطر صورتحال کی طرف گامزن ہوں اور آپ کو آپ کے گھر والوں کی فکر لاحق ہو۔پاکستان آرمی کے جوان بھی کچھ اسی طرح کی صورتحال سے گزرتے ہیں۔ یعنی وہ ملک و قوم کے لیے اپنی جان کا نظرانہ تک پیش کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، مگر ان کے دل میں گھر والوں کے لیے ایک نرم گوشہ ہوتا ہے کہ میرے بعد میرے گھر والوں کا کیا ہوگا۔ اور میرے
گھر والے میری کمی محسوس کریں گے۔آج ایسے ہی چند جانباز سپاہیوں کی کہانیوں کے بارے میں بتائیں گے جن کے گھر والے خاص طور پر والدہ کو ہر لمحے اپنا لخت جگر یاد آتا ہے۔کیپٹن اسفند یار شہید:کیپٹن اسفند یار شہید بھی پاکستان آرمی کے ان جوانوں میں شامل ہیں جو کہ شہادت کا رتبہ حاصل کر کے گھر والوں کے لیے فخر کا باعث بنے ہیں۔بڈھ بیر میں پاکستان ائیر فورس کے کیمپ پر تحریک طالبان کے حملے کے نتیجے میں کیپٹن اسفند یار ش ہ ی د ہو گئے تھے۔اسفندر یار نے دہشت گردوں کے حملے کا منہ توڑ جواب دیتے ہوئے جام شہادت نوش کیا، ان کے والد سید فیاض حسین بخاری کہتے ہیں کہ میرا بیٹا تھا ہی کچھ الگ۔ میں ڈاکٹر تھا مگر میرا بیٹا مجھ سے دو قدم آگے چلا گیا اور وہ پاکستان آرمی میں بطور کیپٹن فرض ادا کر رہا تھا۔ڈاکٹر سید فیاض بتاتے ہیں کہ اسفند یار شروع ہی سے جانباز تھے وہ ہمیشہ ہر منفی چیز کو جو کہ نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی تھی اسے دشمن سمجھ کر ناکوں کان چنے چبا دیتے تھے۔اسفند یار کا ایک واقعہ بتاتے ہوئے سید فیاض کا کہنا تھا کہ ایک روز جب اسفند یار اسکول سے گھر آیا تو گھر کی نوکرانی رو رہی تھی وجہ پوچھی تو نوکرانی نے کہا کہ مجھے شہد کی مکھی نے کاٹ لیا ہے۔ اسفند فورا بیک اتار کر باہر بھاگا اور شہد کے چھتے کو مارنا شروع کر دیا، اس طرح اسفند کو کئی مکھیوں نے کاٹا بھی مگر اسفند نے کئی شہد کی مکھیوں کو مار بھی دیا تھا۔ اندر آکر اسفند کہتا ہے کہ دیکھو میں نے آپ کا بدلہ لے لیا ہے۔دراصل دہشت گردوں سے جب اسفند نبر آزما تھا، اس وقت بھی اسفند ہمت، حوصلے اور بہادری سے لڑ رہا تھا۔ اسفند ایک ایسا جوان تھا جس نے ہر محاز پر، ہر موقع پر سب کو حیران کیا تھا۔ وہ ٹیکسیلا سے گھر تک 11 کلومیٹر تک پیدل چل کر آیا تھا، پسینے میں شرابور تھا، والد نے بتایا کہ اسفند کے پاس پیسے نہیں تھے اور انہوں نے صرف ایک ہی بات کی کہ میں پاکستان آرمی میں ہوں اور میری فٹنس کس دن کام آئے گی اگر میں نے صحیح موقع پر اسے استعمال نہیں کیا تو۔جبکہ والدہ کا کہنا تھا کہ میں اسفند کی کن کن باتوں کو یاد کروں؟ وہ ہر لمحہ ہر موقع پر میری نظروں کے سامنے آتا ہے۔ اسفند ہمیشہ ہی سے فرماںبردار، باصلاحیت، باہمت بیٹا تھا۔ یہ سب بتاتے ہوئے اسفند کی والدہ کے پاس الفاظ ختم ہو چکے تھے اور صرف جذبات تھے جسے دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ ابھی بھی اسفند کی والدہ کی آنکھیں بیٹے کی جھلک دیکھنے کو ترس رہی ہیں۔اسفند کی والدہ نے بتایا کہ وہ (اسفند) اپنے دوست احباب کو جب کبھی بھی تحائف دیتے تھے تو مجھ سے فرمائش کرتے تھے کہ ماما میں دوستوں کو تحائف میں آپ کے ہاتھ کا کھانا کھلاؤنگا۔ اسفند کی والدہ نے بتایا کہ اسفند کو میرے ہاتھ کا کھانا بے حد پسند تھا۔ نہ صرف کھانا بلکہ وہ ہر موقع پر میرے ہاتھ کے کھانوں کا تذکرہ کرتا تھا۔جبکہ اے پی ایس واقعہ سے متعلق والدہ کا کہنا تھا کہ اسفند پر اے پی ایس حملے کا شدید اثر ہوا تھا، وہ مکمل تبدیل ہو چکا تھا۔ اس وقت میں نے کہا تھا کہ اسفند اپنی اہمیت کا احساس کرنا اور یاد رکھنا کہ تمھاری والدہ زندہ ہے۔اسفند کی والد کا اسفند کی شہادت کے موقع پر کہنا تھا کہ اسفند کے چہرے کو دیکھ کر اسفند کی ماں نہ چلائی نہ روئی بلکہ وہ اس بات کو جاننا چاہتی تھیں میرا لخت جگر کس طرح شہید ہوا۔کیپٹن علی مگسی شہید:کیپٹن علی مگسی شہید بھی ان جوانوں میں شامل ہیں جو کہ ملک کا دفاع کرتے کرتے اپنی جان کا نظرانہ دے کر چلے گئے۔ کیپٹن علی کا شمار ان جوانوں میں ہوتا ہے جو سیاچن کی برف پوش چٹانوں میں بھی ہمہ وقت دشمن کی ہر چال پر نظر رکھتے تھے۔دشمن کے بزدلانہ حملوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے شہید علی مگسی نے شہادت بھی اس طرح حاصل کی کہ دشمن حواس باختہ ہوگئے تھے۔ کیپٹن علی مگسی شہید کا بچپن ہی سے خواب تھا کہ میں شہید کا رتبہ حاصل کریں۔والدہ علی کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ علی نے ہمیشہ ہمیں متاثر کیا تھا، وہ ایک ایسا بیٹا تھا جو ہر طرح سے لائق تھا۔ ایک دن میں علی سے باتیں کر رہی تھیں تو اسی دوران علی نے کہا کہ آپ مجھ سے اتنا پیار کرتی ہیں، اگر کسی دن میرا تابوت پاکستانی پرچم میں آیا تو آپ کیا کریں گی۔اس پر والدہ نے کہا کہ علی کیوں ایسی باتیں کر رہے ہو۔ علی کو شہادت کا اس حد تک شوق تھا کہ بہنوں کے لیے پیسے مختص کر دیے تھے کہ یہ تمہاری شادی کے کھانے کے لیے پیسے ہیں اگر میں نہیں رہا تو یہ پیسے استعمال کرنا۔ حتٰی کہ اپنے والد کو بھی کہا کہ میرا سیاچن میں ٹرانسفر کرا دیں میں دشمن کا مقابل کرنا چاہتا ہوں۔والدہ کہتی ہیں کہ علی کی ہر ایک بعد مجھے آج بھی یاد ہے میں اسے نہیں بھول سکتی ہوں۔