کراچی (قدرت روزنامہ)کراچی کے علاقے کورنگی سے ملنے والی خاتون کی لاش کے معاملے میں پولیس نے کئی کوتاہیاں کیں، پوسٹ مارٹم یا کیمیکل ایگزامینیشن کروانا ضروری نہیں سمجھا، خود ہی فرض کرلیا کہ خاتون نشے کی عادی تھی، اس لیے موت نشے کی زیادتی کی وجہ سے ہوئی ہے .
کورنگی نمبر 4 سے یکم ستمبر کو رخسانہ عرف عائشہ کی لاش فٹبال اسٹیڈیم سے ملی جس کی اطلاع چھیپا ویلفیئر کے ریسکیو اہلکاروں کو دی گئی جو پہلے لاش کو زمان ٹاؤن تھانے لے گئے .
پولیس نے امانتاً لاش کو چھیپا ویلفیئر کے سرد خانے میں رکھوا دیا اور بتایا کہ خاتون نشے کی عادی ہونے کے علاوہ گردوں کے سنگین مرض میں بھی مبتلا تھی، پولیس کے مطابق خاتون کی ہلاکت بھی نشے کی زیادتی کی وجہ سے ہوئی .
یہاں پولیس کی جانب سے سنگین غفلتیں سامنے آئیں، پولیس حکام کے مطابق ہلاک خاتون کے جسم پر تشدد کے کوئی نشانات موجود نہیں تھے جس پر یہ تصور کر لیا گیا کہ اس کی موت طبعی تھی، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی خاتون اہلکار نے اس کی لاش کا معائنہ کیا؟ کیا موت کی وجہ جاننے کیلئے لاش کا کیمیکل ایگزامینیشن کروایا گیا؟
ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ پوسٹ مارٹم میں 2 ہزار روپے تک لگتے ہیں تو شاید ڈیوٹی افسر نے یہ پیسے بچائے، عمومی طور پر شہر سے نشے کے عادی مردوں کی لاشیں ملتی ہیں لیکن ماضی قریب میں کسی خاتون کی ایسی لاش ملنے پر پولیس حکام سمیت میڈیکو لیگل حکام بھی کہتے ہیں کہ اس طرح سے خاتون کی لاش ملنا انہونی سی بات تھی، پھر بھی پولیس قیادت نے پوسٹ مارٹم نہیں کروایا . گزشتہ اتوار کو اس لاش کو لے کر سوشل میڈیا پر واویلا کیا جاتا رہا لیکن پھر بھی پوسٹ مارٹم کروانے کے بجائے لاش کو ورثا کے حوالے کردیا گیا، یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس غفلت پر کوئی ایکشن لیا گیا یا پھر یہ جان بوجھ کر کیا گیا؟