بلوچستان سمیت پاکستان میں ساڑھے چھ لاکھ حاملہ خواتین سیلاب زدہ علاقوں میں پھنسی ہوئی‘ 73 ہزار خواتین کی ڈیلیوری آئندہ ماہ ہو سکتی ہے:‘ اقوام متحدہ
کوئٹہ (قدرت روزنامہ)اقوام متحدہ کے بہبود آبادی کے فنڈکے جاری کردہ رپورٹ میں کہاگیاہے کہ بلوچستان سمیت پاکستان میں ساڑھے چھ لاکھ حاملہ خواتین سیلاب زدہ علاقوں میں پھنسی ہوئی ہیں، جن میں سے 73 ہزار خواتین کی ڈیلیوری آئندہ ماہ ہو سکتی ہے اور انھیں فوری طبی امداد کی ضرورت پڑے گی۔گزشتہ روزاقوام متحدہ کے بہبود آبادی کے فنڈ(یو این ایف پی اے)کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق بلوچستان سمیت پاکستان میں ساڑھے چھ لاکھ حاملہ خواتین سیلاب زدہ علاقوں میں پھنسی ہوئی ہیں، جن میں سے 73 ہزار خواتین کی ڈیلیوری آئندہ ماہ ہو سکتی ہے اور انھیں فوری طبی امداد کی ضرورت پڑے گی۔ڈاکٹر اسما بلوچستان کے شہر پشین کے علاقے خانوزئی میں سرکاری ہسپتال میں کام کرتی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ یہاں ایمرجنسی کیسز کو پہلے لیا جا رہا ہے۔قدرتی آفات میں ماں اور بچے کو کسی بھی وقت ہنگامی صورتحال کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ہم ذہنی طور پر تیار ہیں۔ڈاکٹر اسما نے بتایا کہ بنیادی طور پر خانوزئی میں پشتون آبادی کی اکثریت ہے۔ ساتھ ہی افغان پناہ گزین بھی یہاں ہیں، جس کی وجہ سے ہسپتال اور تحصیل پر اضافی بوجھ پڑتا ہے۔ڈاکٹر اسما بتاتی ہیں کہ پچھلے پندہ دن میں ان کے پاس ڈیلیوری کے 69 کیس سامنے آئے ہیں۔اسقاط حمل کے 38 کیسز میں سے 20 ادویات کے ذریعے جبکہ 18 کیسز میں خواتین کا آپریشن کیا گیا۔ یہ ہی نہیں بلکہ ڈیلیوری کے دوران خون زیادہ بہہ جانے کی شکایت لے کر اب تک 14 خواتین ہم تک پہنچ چکی ہیں یعنی حاملہ خواتین اور نومولود خطرے میں ہیں۔ڈاکٹر اسما نے بتایا کہ بے گھر افراد میں نمونیا، نزلہ و زکام، کھانسی اور جلدی امراض پھیل گئے ہیں۔ بہت سے بچوں کو بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے یہاں اموات بھی ہوئی ہیں۔وہ سمجھتی ہیں کہ ان تمام مسائل کا حل بروقت طبی امداد ہے اور جتنا جلدی ہو سکے سیلاب متاثرین اپنی اپنی زندگیوں کی طرف لوٹ جائیں۔
امداد دینے والوں کو کھانے پینے کی اشیا کے ساتھ ساتھ چند بنیادی ادویات اور حاملہ خاتون کی صاف ستھری ڈیلیوری کے اہتمام کے حوالے سے بھی کٹ مہیا کرنا چاہیے۔ اس سے کافی مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ثنا لیڈی ہیلتھ ورکر ہیں اور بلوچستان کے شہر چمن کے ہیلتھ یونٹ سے منسلک ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ماہر نفسیات کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔خاندان کا خاندان متاثر ہے۔ کسی کے بچے مر گئے اور کسی کے بچے کھو گئے ہیں۔ ایسی حاملہ مائیں ذہنی صدمے میں ہیں جن کے حمل صائع ہونے کے امکان زیادہ ہے۔ان حالات میں نئی ماں میں انفیکشن کے امکان بھی بڑھ جاتے ہیں، جو جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس لیے صفائی ستھرائی اور سینٹری پیڈ کا بھی خیال رکھیں۔ اگر کپڑا استعمال کیا جا رہا ہے تو اس کو بھی وقت کے ساتھ تبدیل کر لیا جائے۔ ساتھ ہی نئی ماں کو نومولو د کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔ مناسب صفائی ستھرائی نہ ہونے کی صورت میں بچے بھی انفیکشن کا شکار ہو سکتے ہیں۔ثنا نے بتایا کہ ہم یہاں کوشش کر کے ان خواتین کے لیے شیلٹر یا چار دیواری مہیا کر تے ہیں تاکہ اگر ہنگامی بنیادوں پر ڈیلیوری کرنے کی ضرورت پڑے تو ایسا ممکن ہو سکے۔