سر پر دوپٹہ ہوتا تھا، سادہ سے کپڑے ہوتے پہنتے ۔۔ دیکھیے مستنصر حسین تارڈ کا وہ مارننگ شو، جسے پاکستانی بے حد پسند کرتے تھے

لاہور (قدرت روزنامہ)ایک زمانہ تھا جب پاکستان کے مارننگ شوز میں اخلاقی، سماجی مسائل، معلوماتی اور دلچسپ گفتگو کی جاتی تھی جس سے ناظرین کی بھی تربیت ہو رہی ہوتی تھی اور معاشرے میں بھی اچھائی کا باعث بن رہی تھی۔


ایک ایسا ہی مارننگ شو تھا مستنصر حسین تارڈ کا، جو کہ پاکستان ٹیلی ویژن کی جان ہوا کرتا تھا، جس میں ادب اور اخلاقی روایات کے عین مطابق گفتگو کی جاتی تھی، جو کہ انسانی کی شخصیت پر بھی اثر انداز ہوتی تھی۔


مستنصر حسین تارڈ کے پروگرام میں اگرچہ مہمان شرکت کیا کرتے تھے، لیکن ان مہمانوں کی عزت نہیں اتاری جاتی تھی، جس طرح آج کل کے پروگرامز میں ہوتا ہے، بلکہ انہیں دیگر ناظرین کے لیے ایک رول موڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ایک ایسا ہی پروگرام کافی وائرل ہوا تھا جس میں مستنصر حسین تارڈ پی ٹی وی نیوز کاسٹر شازیہ ظہیر سے محو گفتگو تھے،1988 سے 1990 کی دہائی میں اپنے منفرد انداز کی بدولت پاکستانی ٹی وی اسکرین کی زینت بننے والے اس پروگرام میں مہمانوں سے دلچسپ گفتگو کی جاتی تھی۔
مستنصر حسین تارڈ نے اس پروگرام می اینکر شازیہ کے خبریں پڑھنے کے انداز کے بارے میں بتایا کہ شازیہ نے ایک نیا انداز اپنایا، اسی طرح میزبان نے پوچھا کہ نیوز کاسٹننگ کا پہلا دن کیسا تھا؟ جس پر شازیہ نے دلچسپ اور خوشگوار لمحات کو شئیر کیا۔

دوسری جانب شازیہ نے بھی بتایا کہ وہ لمحہ یادگار لمحہ تھا کیونکہ پی ٹی وی کی مارننگ کی نشریات میں میں پہلی خاتون اینکر تھی جس کی پہلی نیوز سے مارننگ کی ٹرانسمیشن کا آغاز ہوا اور پھر دوسری نیوز آپ کی (مستنصر حسین تارڈ) کی تھی۔یہ مارننگ شو اور میڈیا کا وہ وقت تھا جب میڈیا میں شوبازی، دوسروں کی ثقافت کو اپنانے کی دوڑ سمیت کئی ایسے غیر اخلاقی روایات شامل نہیں تھیں، یہی وجہ ہے کہ ویڈیو میں دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ میزبان کا انداز کس حد تک ملنسار اور دھیما ہے دوسری جانب مہمان بھی شائستگی سے ہر سوال کا جواب دے رہے ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ شازیہ کے سر پر دوپٹہ اور سادہ سے کپڑے اس بات کی نشانی ہیں کہ اس وقت پاکستان کے میڈیا پر برانڈڈ کپڑوں کا رواج نہیں تھا، بلکہ پاکستانی میڈیا عوام کی ہر طرح سے نمائندگی کر رہا تھا۔