پنجاب

Absolutely Not، امریکا نے عمران کے الزامات پھر سختی سے مسترد کردیئے

لاہور(قدرت روزنامہ) پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے الزامات میں کوئی صداقت نہیں، ایسے نظریات افسوسناک ہیں، موجودہ پاکستانی حکومت معیشت کو دوبارہ پٹری پر ڈالنے کے لئے راستے تلاش کررہی ہے، پاکستان میں تمام سرمایہ کاری، چاہے وہ امریکی ہو یا چینی، شفاف اور یکساں جانچ پڑتال کی جانی چاہیے۔ ان خیالات کا اظہار پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے یہاں تعیناتی کے بعد روزنامہ ’’جنگ‘‘ اور دی نیوز کو دیئے گئےپہلے خصوصی انٹرویو میں کیا۔ امریکی سفیر نے حکومت کی تبدیلی جیسے وسیع پیمانے پر سازشی نظریات کو بدقسمتی سے تعبیر کیا ۔ اس خاص نکتے پر بات کرتے ہوئےامریکی سفیر نے کہاکہ امریکہ کے پاکستان کے ساتھ طویل اور انتہائی اہم تعلقات ہیں۔ ہم ایک آزاد، خوشحال اور مضبوط پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ وہی ہے جو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے اوراس خطے دونوں کے مفاد میں ہے۔ جہاں تک الزامات کا تعلق ہے تو اس میں قطعی کوئی صداقت نہیں۔
ہم نے خود اور واشنگٹن میں ان سے بات کی ہے۔ میں بہت پرامید ہوں کہ ہم اس سے گزر کر اس اہم کام میں واپس جاسکیں گے جو ہمیں کرنا ہے، اس وقت دنیا اور ہمارے دونوں ممالک کو درپیش کچھ مسائل پر امریکہ اور پاکستان کومل کر کام کرنا ہے۔امریکہ کی طرف سے پاکستان کے ائیربیس مانگنے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں امریکی سفیر نے کہا کہ فضائی اڈوں کے بارے میں کسی طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی اور خاص طور پر ان کی پاکستان میں تعیناتی کے دوران بھی ایسی کوئی بات میرے ایجنڈے پر نہیں رہی۔
ہمارا ایجنڈا بالکل واضع ہے کہ ہم نے اقتصادی ، تجارتی اور سرمایہ کاری کے تعلقات کی تعمیرکووسعت دینا ہے۔ ہم موسمیاتی تبدیلی پر کام کر رہے ہیں جوبظاہر موجودہ وقت کا ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں نے مل کر توانائی کے ذریعے کایا پلٹنے پر کام کرنا ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ کرہ ارض کے لیے بھی اہم ہے۔ڈونلڈ بلوم نے کہا کہ سیکورٹی کے لحاظ سے دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات ہیں۔پاکستان کے جوہری پروگرام پر امریکی تحفظات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں امریکی سفیر نے کہا کہ علاقائی سلامتی اس وقت پاکستان اوراس کے پڑوسیوں کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔ خطے میں تنائو اور کشیدگی کو کم کرنے اور علاقائی تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنے کے لیےپاکستان کے ساتھ کسی بھی طرح سے کام کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
ڈونلڈ بلوم نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ ریاستوں اور پڑوسیوں کے درمیان اعتماد پیدا کر نے ، مسائل پر تبادلہ خیال اور ناقابل یقین حد تک دباؤ والے چیلنجوں کو حل کرنے کے راستے تلاش کرنے کی ضرورت ہے جن کے لئے کوششیں کرنا ہونگی۔ہمیں ایٹمی پھیلاؤ کے حوالے سے وسیع تحفظات ہیں جس پر ہم بہت محنت سے کام کر رہے ہیں ۔امریکی سفیر نے کہا کہ ان کا ملک جوہری ہتھیاروں اور ان کے پھیلائو سے دنیا کو لاحق خطرات کو کم کرنے کےراستے تلاش کرنے کے لئے پر عزم ہے اوریہ ایجنڈا امریکی انتظامیہ کے لئے بدستور سرفہرست ہے۔
ڈونلڈ بلوم نے کہا کہ پاکستانی حکام کے ساتھ سلامتی کے امور سمیت دیگر اہم امور پر اچھی اور کھلی بات چیت ہوئی ہے ہم نے پاکستان کے ساتھ مل کر جوہری مسائل پر انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی سمیت مختلف بین الاقوامی فورمز اور عالمی سطح پر نیوکلئیر ایشوز کے حوالے سے کام کیا ہے۔ امریکی سفیر نے کہا کہ دونوں ملکوں نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی روک تھام کے لئے اقوام متحدہ کی کوششوں پر مل کر کام کیا ہے ۔ ان مسائل پر مضبوط بلاکس بنانا ہوں گے۔ ڈونلڈ بلوم نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ سول جوہری معاہدہ نہیں کیا تاہم پاکستان کی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کرنے کے حوالے سے تعاون کے لئے پر عزم ہیں۔ پاکستان کی اقتصادی، ماحولیاتی اور سیکورٹی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کی طرف سے کئے گئے بین الاقوامی وعدوں، قوانین اور پالیسیوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے سائفر کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور پارلیمنٹ میں واپسی کے لیے سائفر تحقیقات کی پیشگی شرط رکھ دی ہے، پر امریکی سفیر نے کہا کہ میں اس پوزیشن میں نہیں کہ کہوں کہ اس معاملے پر انکوائری ہونی چاہیے یا نہیں اور نہ ہی عمران خان کے بیان پر کچھ کہنا چاہتا ہوں ۔
انہوں نے کہا کہ ہم معمول کی سفارتی ملاقاتوں کا اتنا بغور جائزہ نہیں لیتے لیکن اس حوالے سے اتنا ضرور کہنا چاہتا ہوں معمول کی سفارتی ملاقاتیں پاکستان یا واشنگٹن جہاں بھی ہوں ، میں مختلف ایشوز پر بات ہوتی ہے جن پر کبھی اتفاق ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا اور یہی سٹینڈرڈ آف بزنس ڈپلومیسی ہے۔ انہوں نے کہا ان چیزوں سے نکل جانا ہی زیادہ اہم ہے۔ایک سوال کے جواب میں کہ کیا وہ کبھی سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سے ملے ہیںڈونلڈ بلوم نے کہا کہ کہ وہ بطور سفیر پاکستان میں تعیناتی کے بعد عمران خان سے نہیں ملے۔قرضوں کی ادائیگی کو موخر کروانے میں پاکستان کی مدد کرنے کے بارے میں ایک سوال پر امریکی سفیر نے کہا کہ ہم یقینی طور پر پاکستان سے ہمدردی ہے۔
پاکستان کو اپنے موخر قرضوں سے نمٹنے کے راستے تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ پاکستان کے ساتھ ادائیگیوں کو موخر کرنے کے لیے کام کرے گا۔ پیرس کلب اور ہمارےقرض کا حصہ چھوٹا ہے لیکن ہم یقینی طور پر پاکستان کی اس مشکل سے گزرنے میں مدد کرنا چاہتے ہیں۔جب امریکی سفیر سے پوچھا گیا کہ پاکستان میں حالیہ معاشی بدحالی کے لیے کون سی سیاسی جماعت ذمہ دار ہےتو انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت پیچیدہ سوال ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک کے لیے اس سوال کا جواب دینا آسان نہیں۔چند بنیادی چیزوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے جن کا پاکستان کے معاشی مستقبل پر بہت زیادہ اثر پڑ سکتا ہے۔ان میں سے ایک، یقیناً، یہ ہے کہ پاکستان کو اپنےمالی انتظامات کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا جس کے مطابق اسے آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ مذاکرات میں پابند کیا گیا ہے.
دوسرے بین الاقوامی قرض دہندگان کے ساتھ بھی بات چیت کرنی چاہئے۔ڈونلڈ بلوم نے موجودہ پاکستانی حکومت کو اس بات کا کریڈٹ دیا کہ وہ معیشت کو دوبارہ پٹری پر لانے کے طریقے تلاش کر رہی ہے۔اس موقع پر جب ا مریکی سفیر سے پوچھا گیا کہ کیا واقعی موجودہ حکومت کو اس کا کریڈٹ دیا جائے تو انہوں نے جواب میں کہا کہ بالکل، یہ ایک اہم کامیابی ہے. آئی ایم ایف مختلف حکومتوں کے ساتھ کام کر رہا ہے۔بنیادی طور پر، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کا آئی ایم ایف پروگرام کے فریم ورک میں رہتے ہوئے قومی مفادات کے بارے میں سوچنا ضروری ہے ۔
پاکستان کو قومی بجٹ کو منظم کرنے کے ایسےراستےتلاش کرنا ہیں جن سے بار بار بحرانوں کا سامنا نہ کرنا پڑے اور یہی وہ چیز ہے جسے آئی ایم ایف کا اصلاحاتی پروگرام قرضوں سے پیدا شدہ بحران کے تسلسل کو توڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے کسی بھی ملک پر قرضوں کو نقصان پہنچانے والی چیزیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ قلیل مدت میں یہ چیزیں پاکستان کے لئے مشکل ہیں لیکن طویل مدت میں یہ انتہائی اہم ہے کہ پاکستان اقتصادی ترقی کے لئے راستے تلاش کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
مستحکم مالیاتی حالات اس کے لیے ایک بنیاد ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ مجھے لگتا ہے پاکستان بین الاقوامی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے نئے راستے تلاش کرے گا۔ میرے خیال میں پاکستان کواب بین الاقوامی تجارت کے انداز کو بدلنے کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ سپلائی چین جودنیا بھر میں تیزی سے تبدیلی لارہی ہے سےخطے کے کئی ممالک فائدہ اٹھا رہے ہیں۔اس کا فائدہ ان کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں پاکستان کے پاس انسانی سرمایہ اور مہارت بہت زیادہ ہے۔
پاکستان ایسی جگہ ہے جہاں انٹرنیشنل مینوفیکچررزاہم فیصلے لے کرپاکستان کے مستقبل میں اہم کردار ادا کر سکتےہیں۔ افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلاء اور اس صورتحال میں پاکستان کے کردار پر ایک سوال کے جواب میں ڈونلڈ بلوم نے کہا کہ نہ صرف پچھلے سال انخلاء کے وقت ہمارا پاکستان کے ساتھ بہت اچھا تعاون تھا بلکہ اس کے بعد جن افغانوں نے وہاں سے بیرون ملک جانے کی کوشش کی ہم نے مل کر ان کی مدد کی ۔ان میں سے بہت سے اب امریکہ میں آباد ہو چکے ہیں۔ یہ دراصل ایک بہت مضبوط رشتہ ہے۔امریکہ اور پاکستان ساتھ مل کر عملی طور پر مسائل سے نمٹتے ہیں۔افغان سرزمین سے پاکستان پردہشت گردوں کے حملوں کے حوالے سے ڈونلڈ بلوم نے کہا کہ ظاہر ہے امریکہ کو افغانستان سےپاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے بارے میں بہت زیادہ خدشات ہیں۔
پاکستان بلاشبہ، فرنٹ لائن پر ہے اس کے اپنے بھی خدشات ہیں۔ پاکستان اس وجہ سے مسلسل مشکلات کا شکار ہے اور اس نے دہشت گردی کی قیمت ادا کی ہے۔ طالبان اپنے وعدوں کو سمجھتے ہیں جو انہوں نے دوحہ میں کیے تھے اورانہیں ان کا احترام کرنے کی ضرورت ہے۔ان کے تمام پڑوسیوں کو دہشت گردی کے خطرات سے محفوظ رکھنےکی ضرورت ہے۔ طالبان کی یہ ایک بنیادی ذمہ داری بھی ہے اور عزم بھی جو طالبان کو کرنا ہے۔صدر بائیڈن کے اس اعلان کے بارے میں کہ امریکہ پاکستان کو ایف 16 کے پرزے فراہم کرے گا۔امریکی سفیر نے کہا کہ دفاعی لحاظ سے پاک امریکہ تعلقات بہت مضبوط ہیں۔ہم نے دو طرفہ دفاعی مشقوں کی رفتار میں اضافہ کیا۔مارچ میں ہم نے’’ فالکن ٹیلن ‘‘ اور اپریل میں’’ انسپائرڈ یونین ‘‘ بحری مشقیں کیں۔
گزشتہ سال امریکی بحریہ کے آٹھ جہاز پاکستان آئے تھے۔ یہ سب مسلسل، مضبوط تعلقات اور تعاون کی نشانیاں ہیں۔پاکستان کے لئےہمارے تربیتی پروگرام کئی دہائیوں تک بہت زوردار اور مضبوط رہے۔ بحیرہ عرب میں دونوں ملکوں کی بحری افواج قزاقوں اور دہشت گردی سےتحفظ کے لیے بین الاقوامی پانیوں پر مل کر گشت کر رہی ہیں۔ڈونلڈ بلوم نے کہا کہ درحقیقت پاکستان 20 مرتبہ مشترکہ میری ٹائم فورسز کی کمانڈ کر چکا ہے جو کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہے۔
دونوں ملکوں کے مابین دفاعی منتقلی اور حفاظتی معاونت کے حوالے سے وسیع پیمانے پرسیکورٹی پارٹنرشپ گزشتہ کئی دہائیوں سےبہت مظبوط رہی ہے۔ امریکی سفیر نے کہا کہ جہاں ہم نےتعین کیا کہ دونوں ملکوں کا مفاد ہے تو ہم نے ایف سولہ کے حوالے سے اعلان کیا۔ہم دونوں فریقوں کے مفادات کو پورا کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ F-16 پروگرام پاکستان کے ساتھ ایک طویل مدتی عزم اور طویل مدتی شراکت داری ہے جس میں ہم مدد کرنا چاہتے ہیں۔پاکستان کے ساتھ اس تعاون کو قائم رکھنے کی جھلک صدر بائیڈن کے ایف سولہ کے حوالے سے اعلان میں نظر آئی ۔
ڈونلڈ بلوم سےجب پوچھا گیا کہ صدر بائیڈن نے حال ہی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں توسیع کی بات کی ہے۔ کیا آپ کا ملک ہندوستان کو مستقل رکن کے طور پر شامل کرنے کی حمایت کرے گا تو ان کا کہنا تھا کہ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں توسیع کے حوالے سےنیویارک میں صدر بائیڈن کے بیان میں اضافہ کرنے کے لئے میرے پاس کچھ نہیں ۔ لہذا، میں اسے نیویارک میں ان کے بیان پر ہی چھوڑتا ہوں۔جب امریکی سفیر سے پوچھا گیا کہ پاکستان کو اس خطے میں خوشحال ممالک کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو متنوع بنانے کی ضرورت ہےجس میں ظاہر ہے چین بھی شامل ہے۔
پاک چین اقتصادی تعاون اور خاص طور پر سی پیک کے حوالے سے واشنگٹن کو کیا تحفظات ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ واضع کرنا ضروری ہے کہ امریکہ کسی بھی صورت میں پاکستان یا کسی دوسرے ملک کو واحد اقتصادی پارٹنر یا بلاک کا انتخاب کرنے کے لئے نہیں کہتا۔ اب یہاں اہم بات یہ ہے اور جس پر امریکہ زور دیتا ہے کہ بین الاقوامی تجارت اور سرمایہ کاری شفافیت کے بین الاقوامی معیار پر مبنی ہونی چاہیے۔سچ کہوں تو امریکہ اور چین کے درمیان کئی سالوں سے بہت پیچیدہ اقتصادی تعلقات ہیں لیکن ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات شفافیت اور مساوی سلوک کے ان اصولوں پر مبنی ہوں۔چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے بارے سوال امریکہ کے لئے نہیں پاکستان کے لئے ضروری ہے۔ہم نے اس خطے اور دنیا بھر میں مسائل دیکھے ہیں جہاں قرضے بہت سے ممالک کے لیے ایک مسئلہ بن چکے ہیں۔
ہمیں سرمایہ کاری میں شفافیت کے حوالے سےصرف یہیں نہیں بلکہ اور بہت سے جگہوں پر بہت تشویش ہے۔ بس یہاں مسئلہ دراصل یہ ہے کہ پاکستان میں کس قسم کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے؟ کیا یہ منصفانہ اور مساوی بنیادوں پر ہے؟ امریکی سفیر نے کہا کہ میرے خیال میں پاکستان میں ہونے والی تمام سرمایہ کاری خواہ وہ امریکی ہو یا چینی اس کی یکساں جانچ پڑتال ہونی چاہئے۔ایک سوال کے جواب میں کہ اگر عمران خان دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو کیا آپ ان کے ساتھ کام کریں گے ،پر امریکی سفیر نے کہا کہ بالکل۔ پاکستانی عوام جو بھی حکومت منتخب کریں گے اس کے ساتھ کام کریں گے اور یہ وہ اصول ہے جس پر ہم نہ صرف پاکستان ہر جگہ عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر کہا کہ ہم اسی پاکستانی حکومت کے ساتھ کام کرتے ہیں جسے پاکستانی عوام منتخب کرتے ہیں۔دیگر اہم شعبوں میں امریکہ اور پاکستان کے تعاون کی طرف اشارہ کرتے ہوئےامریکی سفیر نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے اور یہ وسیع البنیاد ہے۔
ہم پاکستانی حکومت اور حکام کے ساتھ پاکستان کی ترقی کی حکمت عملیوں کے حوالے سے، جتنا ممکن ہو،ساتھ چلنا چاہتے ہیں۔ ہم نے تاریخی طور پر صحت سمیت دیگر بھی کئی شعبوں میں پاکستان کی معاونت کی ہے اور ہم یہ جاری رکھیں گے۔ڈونلڈ بلوم نے کہا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان کے لیے ہماری امداد میں اضافہ ہوا ہے اورسب سے زیادہ سویلین امداد ہم نے فراہم کی ہے۔ ، ہم نے ان شعبوں میں کام کیا جن کا میں نے ذکر کیا ۔ ہم سے زیادہ کوئی دوسرا ملک پاکستان کو گرانٹ کی بنیاد پر امداد فراہم نہیں کر رہا ۔
پاکستان کی وزارت اکنامک افئیرز ڈویثرن کے مطابق گزشتہ 60 سالوں کے دوران پاکستان کو امریکہ کی کل امداد 32.5 بلین ڈالر سے زیادہ ہے جو کافی بڑی ہے۔امریکی سفیر نے کہا کہ ہم ان چیزوں پر واقعی فخر محسوس کرتے ہیں جو ہم نے حال ہی میں پاکستان کے لئے کی ہیں۔ ہم نے کووڈ ویکسین کی 77 ملین خوراکیں عطیہ کیں جسکے بعد حال ہی میں بچوں کی ویکسین کی مہم کا آغاز کیا گیا۔ یہ ان لاکھوں پاکستانی بچوں کی مدد کریں گی جو ویکسین لگائیں گے۔ ہم پاکستان کو ٹیسٹنگ لیبز فراہم کر رہے ہیں، جو بیماری کی نگرانی کو مضبوط بنانے کے لیے واقعی ہائی ٹیک طریقے ہیں۔ مستقبل پر نظر ڈالتے ہوئے، جیسا کہ میں نے تجارت اور سرمایہ کاری کے تعلقات استوار کرنے کے بارے میں بات کی، امریکی کمپنیاں پاکستان کی سب سے بڑی آجر ہیں کیونکہ 80 امریکی کمپنیوں نے 1,20,000 پاکستانیوں کو براہ راست ملازمت فراہم کی ہے اور بالواسطہ طور پر، وہ مزید 10 لاکھ پاکستانیوں کی ملازمتوں میں مدد کررہے ہیں۔
ڈونلڈ بلوم نے کہا کہ امریکی کمپنیاں اعلیٰ ترین بین الاقوامی معیار پر عمل کرتے ہوئے شفاف اور مسابقتی کاروباری ماحول کو فروغ دیتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس صاف پانی اور صفائی ستھرائی کی خدمات تک رسائی کو بڑھانے کے حوالے سے کامیابی کی ایک طویل تاریخ ہے اور ہم نے صوبہ کے پی اور سندھ میں تقریباً تیس لاکھ افراد کو صاف پانی اور صفائی ستھرائی کے حوالے سے خدمات فراہم کیں۔ ہم نے 2011 سے اب تک 1700 سکول بنائے اور ان کی مرمت کرنے کے علاوہ 91ہزار اساتذہ کو تربیت دی ۔ ہم ہر سال تعلیمی تبادلے کے پروگرام کے تحت 800 پاکستانی طلباء کو بھی اعلی تعلیم کے لئے امریکہ لاتے ہیں جبکہ 37 ہزار پاکستانی بڑے طاقتور نمائندے ہیں۔
امریکی سفیر نے کہا کہ مستقبل کو دیکھتے ہوئے، بہت سے ایسے شعبے ہیں جن پر ہمیں مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارا تعاون بے پناہ صلاھیتوں پر مبنی اور مضبوط ہے جس پر ہم کام کر سکتے ہیں۔ دوسرا پاکستان کی توانائی کی تبدیلی اور آزادی ہے۔ پاکستان نے اپنے توانائی کے شعبے میں مقامی ذرائع کے استعمال میں تبدیلی کرنے کے لیے کچھ اہم وعدے کیے ہیں، خاص طور پر آج کی مہنگائی اور درآمدی ایندھن کی قیمتوں کی دنیا میں بہت اہمیت ہے۔ ہم مل کر کام کر سکتے ہیں اور اس میں پاکستان کی مدد کر سکتے ہیں۔
امریکی سفیر نے اس تناظر میں امریکی کمپنیوں کے فنانسنگ آپشنز کے بارے میں بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ ظاہر ہے، ایک اور چیز موسمیاتی لچک ہے۔ یہ وہ تصور ہے کہ ہمیں مستقبل میں موسمیاتی آفات سے بچنے کے لیے ایک بہتر انفراسٹرکچر بنانا ہےاور آخری شعبہ جس پر ہمیں مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے وہ تعلیم ہے اور ہم تعلیم پر ایک مضبوط بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ میں نے ان میں سے کچھ اعدادوشمار کا تذکرہ کیا لیکن پاکستان کی مستقبل کی ترقی کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے، پاکستان کو اس بات کو یقینی بنانے کے طریقے تلاش کرنے کی ضرورت ہوگی کہ نوجوانوں کو عالمی معیشت میں حصہ لینے کا ہر موقع ملے۔ انہیں تعلیم کی بنیاد اور تیزی سے بدلتی ہوئی عالمی معیشت میں حصہ لینے کے مواقع حاصل کرنے ہوں گے۔امریکی سفیر سے پاکستان کے ایک بڑے حصے میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے حوالے سے امریکی امداد کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے اقوام متحدہ کی ابتدائی اپیل میں تقریباً 56.5 ملین ڈالر دیے ہیں اور، حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ نے نے ایک اضافی 10 ملین ڈالر کا اعلان کیا ہے جو خاص طور پر فوڈ سیکیورٹی پر مرکوز ہیں ۔ یہ امداد کسانوں کے لیے بیجوں اور کھادوں اور سیلاب سے تباہ شدہ آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے کی مرمت پر خرچ کی جائے گی۔ اس سلسے میں پہلے دی گئی امداد اقوام متحدہ کی ایجنسیوں یو این ڈی پی، یونیسف اور ورلڈ فوڈ پروگرام کے ذریعے دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ اس سسلسلے میں ہم متعدد بین الاقوامی این جی اوز کے ذریعے بھی کام کر رہے ہیں۔

متعلقہ خبریں