مصوری ایک ایسی تصویر زبان ہے جو ہردور میں بولی جاتی ہے، زمانہ قدیم سے لے کر اب تک اس میں تھوڑا سا فرق آیا ہے لیکن مقاصد آج بھی ایک جیسے ہیں . جدید دور میں فن پاروں کے ذریعے اپنا مدعا بیا ن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے .
،مصور وقت کے ساتھ ساتھ اپنی جدت میں تبدیلی لاتا ہے، آج مختلف طریقوں سے مصوری کی جارہی ہے .
مصوری کے اولین شواہد حجری دور کے غاروں میں ملے ہیں،یہ غارزیادہ تر سپین اور فرانس کے علاقوں میں واقع ہیں، ن میں زیادہ ترتصاویر جانوروں کی ہیں،برصغیر میں بھی مصوری کی تاریخ بہت پرانی ہے، یہاں پتھر کے زمانے
میں ہی غاروں میں مصوری شروع کی گئی تھی . ہوشنگ آباد اور بھیمبٹیکا کے علاقوں میں غاروں اور غاروں میں انسانی تصویر کشی کے شواہد مل گئے ہیں .
ان پینٹنگز میں، شکار، انسانی گروہوں کے شکار، خواتین اور جانوروں اور پرندوں وغیرہ کی تصاویر ملی ہیں
دو ر جدید میں مصوری میں نئی تبدیلیاں آئی ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ مصوری میں جدت آئی ہے، آج کے دور میں مصوراپنے خیالات فن پاروں میں عیاں کرنے کی کوشش کرتے
ہیں
لیلیٰ مسلم پانیزئی بلوچستان کے ضلع زیارت کے ایک پسماندہ علاقے احمدون سے تعلق رکھتی ہیں، وہ گریجویٹ ہیں اور مصوری کرنے کا بڑا شوق ہے، انہوں نے تو باقاعدہ اس کی تربیت حاصل نہیں کی ہے لیکن اس کے باوجود وہ بہترین آرٹ کرتی ہیں
، وہ اب تک مصوری کی متعدد نمائشوں میں حصہ لے چکی ہیں،گزشتہ روز بھی پشتون کلچر ڈے کے موقع پر ان کی سکیچ کو کافی پسند کیا گیا اور ان کو تعریفی سندسے بھی نوازا گیا
لیلیٰ مسلم پانیزئی کا کہنا ہے کہ چونکہ میرا تعلق ایک پسماندہ علاقے سے ہے وہاں اعلیٰ تعلیم کے مواقع نہیں،مصوری تو دور کی بات ہے، ان کا کہنا کہ مجھے بچپن سے شوق تھا لیکن اس کیلئے کوئی استاد نہیں تھا، میں بچپن سے ہی مختلف شخصیات کی سکیچز بناتی تھیں اور یہ شوق آہستہ آہستہ بڑھتا گیا اور ساتھ میں میرے کام میں بھی نکھارآتا گیا ہے
ایک سوال کے جواب میں لیلیٰ مسلم پانیزئی نے بتایا کہ ہمارے معاشرے میں
لوگ اس شعبے کے قریب آتے جارہے ہیں، مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین نے بھی اس شعبے میں قدم رکھنا شروع کیا، انہوں نے شہید عثمان خان کاکڑ کی برسی اور پشتو ن کلچر ڈے کے موقع پر منعقدہ مصوری نمائش کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ صوبے کے مختلف علاقوں جو پسماندہ بھی ہیں سے تعلق رکھنے والے مرد وخواتین نے حصہ لیا، ان کے کام کو ملک بھر سے آنیوالے لوگوں نے پسند کیا اور سراہا،وہ کہتی ہیں کہ مردوں کو پھر بھی تربیت حاصل کرنے کے مواقع ملتے ہیں لیکن ہم باالکل محروم ہیں، اس بات پر وہ شکوہ کرتی ہوئی نظرآئی کہ ہمارے علاقوں میں جب تعلیم کے مواقع ہی نہیں تو دیگر شعبوں میں کونسے مواقع ملیں گے؟وہ کہتی ہیں کہ ہمارے گاؤں میں بجلی بھی نہیں، نیٹ کی سہولت نہیں، ہمیں مواقع نہیں مل رہے
لیلیٰ مسلم پانیزئی اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہتی ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ مصوری میں تبدیلی آرہی ہے، آج کل ہر کام میں کمپیوٹر کا عمل دخل ہے، ڈیجیٹل کیمرے آچکے ہیں، لوگوں کی تمام جدید چیزوں سے رسائی حاصل ہوگئی ہے اس لئے سکیچز وغیرہ کی پہلے جیسی اہمیت نہیں رہی، اس کے باوجود ہم وسائل نہ ہونے کے باوجود اپنی مدد آپ کے تحت اس کام کوآگے بڑھا رہے ہیں، لیلیٰ مسلم پانیزئی نے اپنے کام کے بارے میں بتایا کہ میں زیادہ ترسکیچ کا استعمال کرتی ہیں، ان لوگوں کا سکیچ شوق سے بناتی ہوں جن کا کسی نہ کسی طرح سے عوام کی فلاح وبہبود کے کاموں میں میں حصہ رہا ہو ں، عوام ان کو اچھے نام کے ساتھ یا د کرتے ہوں، وہ کہتی ہیں کہ حکومت کی طرف سے اس شعبہ کی سرپرستی ہونی چاہیے، کوئی تنظیم اگر اس کیلئے کام بھی کررہی ہے تو ہمیں یا ان کی ہم تک رسائی نہیں ہے، لیلیٰ مسلم اپنے اور دوسرے آرٹسٹوں کے بارے میں بتاتی ہیں کہ حکومت کی سطح پر ہمارے لئے کوئی مصوری کی نمائش منعقدنہیں کی جاتی ہے، ہم اگر کوئی نمائش منعقد کراتے بھی ہیں توا س کا سار ا خرچہ ہمیں خود ہی ادا کرنا پڑتا ہے، اگر ہمارے پاس وسائل نہیں ہوں تو ہمارا ٹیلنٹ ایسے ہی ضائع ہو جاتا ہے
لیلیٰ مسلم نے صوبائی حکومت سے اپیل کی ہے کہ مصوری کے شعبے پر خصوصی توجہ دی جائے، اگر سکولوں کی سطح پر اس کے فروغ کے لئے اقدامات کئے جائیں تو کافی لوگ اس شعبے میں آگے آسکتے ہیں، وہ مزید کہتی ہیں کہ سال میں تین چار بار حکومتی سطح پر نمائشوں کا اہتمام کیا جائے اور مصوروں کی حوصلہ افزائی کیلئے فنڈز رکھے جائیں تاکہ اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد مایوسی کاشکار نہ ہوں اور وہ اپنا کام جاری رکھیں