جے یو آئی (ف) کا بلوچستان حکومت میں شمولیت کا حتمی فیصلہ تاخیر کا شکار
کوئٹہ(قدرت روزنامہ)بلوچستان حکومت میں شمولیت کی دعوت ملنے کے باوجود جمعیت علمائے اسلام (ف) صوبائی حکومت میں شمولیت کے حوالے سے سوچ بچار کررہی ہے اور اس کی حکومت میں شمولیت کا حتمی فیصلہ تاخیر کا شکار ہوگیا۔ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق جمعیت علمائے اسلام(ف) کو وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی جانب سے یہ پیشکش تب دی گئی تھی جب ایک ہفتہ قبل وہ جے یو آئی(ف) کے صوبائی سربراہ مولانا عبدالواسع کی رہائش گاہ پر ملاقات کے لیے گئے تھے۔
کے یو آئی(ف) نے کچھ شرائط کے ساتھ صوبائی حکومت میں شمولیت پر آمادگی ظاہر کی تھی۔بعد ازاں مولانا عبدالواسع نے کہا تھا کہ اس معاملے پر جے یو آئی (ف) کا موقف 48 گھنٹوں میں واضح ہو جائے گا۔دوسری جانب جماعت کے سینئر رہنما مولانا عبدالواحد صدیق نے واضح طور پر کہا تھا کہ جے یو آئی (ف) اتحاد میں شامل ہونے جا رہی ہے۔
تاہم ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود جمعیت علمائے اسلام (ف) اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرسکی، سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام(ف) کو مخلوط حکومت میں شمولیت کی کوئی جلدی نہیں ہے۔یاد رہے کہ جام کمال کی جانب سے عبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کی بعد دونوں کے درمیان اختلافات سامنے آئے تھے، ان اختلافات کو دور کرنے کے لیے عبدالقدوس بزنجو کی جام کمال کے ساتھ ملاقات ہوئی جو بعد میں سیاسی بحث کا حصہ بنیں تاہم یہ تحریک عدم اعتماد مطلوبہ تعداد نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ہوگئی تھی۔
اسی دوران عبدالقدوس بزنجو نے اپنے دورہ کراچی کے دوران بلوچستان نیشنل پارٹی(بی این پی-مینگل) کے سربراہ سردار اختر جان مینگل کو مخلوط حکومت میں شمولیت کی پیشکش بھی کی تھی۔اس پیشکش کو قبول کرتے ہوئے اختر منگل کا کہنا تھا کہ شمولیت کا حتمی فیصلہ مشترکہ طور پر کریں گے کیونکہ دونوں جماعتوں کو اتحاد میں شامل ہونے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ بی این پی مینگل کی مرکزی کمیٹی اس حوالے سے فیصلہ کرے گی۔
بعد ازاں اختر مینگل نے جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی اور پیشکش پر تبادلہ خیال کیا۔سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو اپنی جام کمال خان سے ہونے والی ملاقات کے نتائج کے منتظر ہیں کیونکہ اس ملاقات کے بعد انہوں نے اپوزیشن اراکین (جے یو آئی (ف) اور بی این پی (مینگل) کو ناراض کردیا ہے۔
تاہم یہ پیشکش بلوچستان عوامی پارٹی کے کچھ ارکان کو ناگوار گزر رہی ہے کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اس پیشکش کو قبول کرنے کی صورت میں وہ صوبائی کابینہ میں اپنی وزارتوں سے محروم ہو جائیں گے۔وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو، جے یو آئی (ف) اور بی این پی مینگل کے حتمی فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ان کی پاس فیصلہ کرنے کی لیے بہت کم وقت ہے کیونکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے کچھ ارکان جو پہلے ہی سابق وزیر اعلیٰ جام کمال کے ساتھ تھے، بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر کو تبدیل کرنے پر غور کر رہے تھے۔
تاہم عبدالقدوس بزنجو کے قریبی ساتھیوں نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی صدر اور پارلیمانی لیڈر کے طور پر وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کی حمایت پر متفق ہیں۔انہوں نے حکومت میں کسی تبدیلی کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جے یو آئی(ف) جلد ہی کابینہ میں شامل ہو گی۔