مصنوعی مٹھاس بڑھاپے میں یادداشت کے مسائل کا سبب بن سکتی ہے، تحقیق

لاس اینجلس(قدرت روزنامہ) ماہرین صحت اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں چینی کا استعمال کم کرنا چاہیئے۔جس کو مدِ نظررکھتے ہوئے بعض افراد ذائقے کو برقرار رکھنے کے لیے مصنوعی مٹھاس کا استعمال کرتے ہیں۔لیکن اب مطالعوں میں یہ بات سامنے آنے لگ گئی ہے کہ چینی کے یہ متبادل بھی ہمارے جسم کو چینی سے زیادہ اور مختلف طریقوں سے نقصان پہنچا رہا ہے۔ایک نئی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ نوجوانی میں مصنوعی مٹھاس کا استعمال بڑھاپے میں سنجیدہ نوعیت کا طویل مدتی یاد داشت کے مسائل کا سبب بن سکتا ہے۔
امریکی محققین کی جانب سے کی جانے والی اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ مصنوعی مٹھاس میٹابولزم کو سست کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ذیابیطس کے خطرات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔JCI Insight نامی جرنل میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق مصنوعی مٹھاس چینی کا ذائقہ محسوس کرنے کی زبان کی صلاحیت کو کمزور کردیتی ہے۔ جس کی وجہ سے لوگ مٹھاس کو محسوس کرنے کےلیے زیادہ چینی والے مشروبات یا کھانوں کا استعمال کرتے ہیں۔
یونیورسٹی آف ساؤتھ کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے تحقیق کے شریک مصنف پروفیسر اسکاٹ کینوسکی کا کہنا تھا کہ تحقیق کے نتائج میں یہ نہیں کہا گیا کہ کسی کو کم کیلوریز والی مصنوعی مٹھاس استعمال نہیں کرنی چاہیئے، بلکہ اس بات کو واضح کیاگیا کہ زندگی کے شروع کے دور میں اس کو عادتاً استعمال کرنے کے غیر متوقع طویل مدتی اثرات ہوسکتے ہیں۔
تحقیق میں محققین کی ٹیم نے چوہوں کو کم کیلوریز والے چینی کے مختلف متبادل ملا پانی پلایا۔ جبکہ چوہوں کے ایک دوسرے گروپ کو کھانے کے ساتھ سادہ پانی دیا گیا۔ایک مہینے بعد چوہے جب بڑے ہوگئے تو تحقیق کے مصنفین نے دو مختلف تجربوں سے ان کی یاد داشت کا معائنہ کیا۔تجربے میں معلوم ہوا کہ جن چوہوں نے بڑے ہوتے ہوئے میٹھے مشروبات پیئے تھے ان کو یاد داشت کے ٹیسٹ سے گزرنے میں سادہ پانی پینے والے چوہوں کی نسبت زیادہ مشکلات کا سامنا تھا۔