لنکا شائر(قدرت روزنامہ) ہماری زندگی کے یادگار لمحات عموماً مخصوص کھانوں سے جُڑے ہوتے ہیں . کوئی تقریب ہو یا دوستوں کی بیٹھک کھانا کسی نہ کسی روپ میں اس موقع کو یادگار بنا دیتا ہے .
برطانیہ میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کچھ کھانوں کی خوشبو ڈیمینشیا کے مریضوں میں یادداشت کی تعمیرِ نو کو ممکن کر سکتی ہے . لنکاشائر کی لنکیسٹر یونیورسٹی کے محققین نے ایک تحقیق میں بوڑھے افراد کو ان کی جوانی کے دور کے کھانوں کے ذائقے چکھائے جس کے بعد ان کو اہم لمحات کی یادداشت واضح ہوگئی .
سائنس دانوں کی ٹیم کو امید ہے کہ تحقیق کے نتائج ڈیمینشیا کے مریضوں کی یادداشت کی دوبارہ تعمیر میں مدد کے لیے نئی تکنیک کی راہ ہموار کریں گے . تحقیق کے مصنفہ ڈاکٹر وائیوا کیلنی کائٹے کا کہنا تھا کہ بالآخر ہمارے پاس ایسی ٹیکنالوجی ہے جو مختلف کھانوں کے ذائقے اور خوشبو انتہائی مؤثر انداز میں استعمال کرتے ہوئے یاد داشت کی تعمیرِ نو کرسکتی ہے . یہ ہمیں ماضی یاد کرنے کے لیے دیے جانے والے مضبوط اشارے ہیں .
نئی تحقیق میں محققین نے صرف اس بات پر توجہ مرکوز رکھی کہ کھانوں کے ذائقے کی خوشبو کس طرح واقعات یاد کرنے کے عمل کو متاثر کرتی ہے . تحقیق کے لیے ٹیم نے 12 بوڑے افراد کا انتخاب کیا اور ان کی کل 72 یادداشتوں کو اکٹھا کیا . ان یادداشتوں میں نصف کا تعلق کھانے سے تھا جن میں کسی شادی میں بار بی کیو کھانا،چھٹیوں پر تھائی پکوان کھانا اور اسپتال میں اسٹرابیریز کھانا شامل تھا .
ان یاد داشتوں کے لیے محققین نے شرکاء کے ساتھ مل کرتھری ڈی پرنٹڈ ذائقے دار چھوٹی گیندیں بنائی جن کو کھایا جاسکتا تھا اور یہ حقیقی کھانوں کی نقل تھیں . شرکاء کو ان ذائقوں کو کھانے سے پہلے اور بعد میں اکٹھی کی گئی یادداشتوں کو یاد کرنے کے لیے کہا گیا . جس کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کھانے کی خوشبو سے ان کی یادداشت واضح ہوگئی تھی .