اسلام آباد(قدرت روزنامہ) چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ پاکستان میں جائیداد اور دولت بنانے پر کوئی کنٹرول نہیں، نہ ہی احتساب ہے . نیب قوانین میں ترامیم سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 1996ء میں ایک کیس میں زندہ درخت کی مثال دی .
زندہ درخت گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھے گا . قانون نہیں ہوگا تو مافیاز ہوں گے . پاکستان میں بہت سے مافیاز ہیں . میں کسی مافیا کا نام نہیں لوں گا ، لیکن مافیاز کی وجہ سے بد امنی اور انتشار پیدا ہوتا ہے .
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے نظام میں مناسب ریگولیٹر موجود نہیں . دنیا میں جائیداد اور دولت پر ٹیکس لیا جاتا ہے، ہمارے ہاں 2001ء میں ویلتھ ٹیکس کو ختم کردیا گیا . ملک میں جائیداد بنانے پر کوئی کنٹرول نہیں، نہ احتساب ہے . یہ سب نکات ہیں جو سیاسی نوعیت کے ہیں ،جو پارلیمان نے طے کرنے ہیں .
چیف جسٹس نے کہا کہ احتساب تندرست معاشرے اور تندرست ریاست کے لیے اہم ہے . کرپشن دنیا میں ہر جگہ موجود ہے . کچھ نقائص بھی موجود ہیں . نقص یہ بھی ہے کہ کچھ سرکاری ملازمین جیلیں کاٹ کر بری ہو چکے ہیں . کچھ کاروباری شخصیات بھی نیب سے مایوس ہوئیں، نیب ترامیم میں کچھ چیزیں بھی ہیں جن سے فائدہ ہوا . کچھ ایسی ترامیم بھی ہیں جو سنگین نوعیت کی ہیں . ہم نے توازن قائم کرنا ہے . نیب قانون میں حالیہ تبدیلی کے سبب ملزمان کو فائدہ بھی پہنچا . پلی بارگین اور 500 ملین روپے کی حد مقرر کرنے سے ملزمان کو فائدہ ہوا .
چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ معیشت پالیسی کا معاملہ ہوتا ہے جس میں عدالت مداخلت نہیں کر سکتی . عوام کے اثاثوں کی حفاظت ریاست کی ذمے داری ہے . بے تحاشا قرض لینے کی وجہ سے ملک بری طرح متاثر ہوا ہے . قرضوں کا غلط استعمال ہونے سے ملک کا یہ حال ہوا . چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ زیادہ تر غیر ضروری اخراجات ایلیٹ کلاس کی عیاشی پر ہوئے . ملک میں 70 سے 80 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں . عدالت حکومت کو قرض لینے سے نہیں روک سکتی . معیشت کے حوالے سے فیصلے کرنا ماہرین ہی کا کام ہے .