جب اسے دیر ہوتی، تو میں ڈر جاتی تھی کہ ۔۔ حالات بدل گئے لیکن سموسے اب بھی فروخت کرتا ہے، جانیے زاہد کی والدہ کس بات سے پریشان ہیں؟

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)جب اسے دیر ہوتی، تو میں ڈر جاتی تھی کہ ۔۔ حالات بدل گئے لیکن سموسے اب بھی فروخت کرتا ہے، جانیے زاہد کی والدہ کس بات سے پریشان ہیں؟ ہماری ویب 17 Nov, 2021 سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں سے بہت سے لوگوں کی مدد ہوئی ہے، ایسے کئی واقعات ہمارے سامنے ہیں جب بہت سے افراد کی مالی مدد ہوئی یا پھر انہیں انصاف ملنے میں مدد ملی ہو۔ ہماری ویب ڈاٹ کام کی اس خبر میں آپ کو سوشل میڈیا سے مشہور ہونے والے بچے زاہد کے بارے میں بتائیں گے۔ زاہد اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا ہے، جبکہ زاہد گزشتہ 3 سال سے سموسے فروخت کر رہا ہے۔ زاہد کی ویڈیو سوشل میڈیا ر وائرل ہوئی تھی، ویڈیو نامعلوم لڑکی جانب سے بنائی گئی تھی جس میں زاہد اس لڑکی کو سموسے فروخت کر رہا تھا اور چٹکلی باتیں کر رہا تھا۔ زاہد ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ان کی لگن اور محنت کو دیکھتے ہوئے کئی اسکولوں نے ان کو مفت داخلے کی پیش کش ہوئی۔

زاہد کہتے ہیں کہ میں ویڈیو بنانے والی خاتون کو نہیں جانتا تھا، اس کے بعد اگلے دن میں اسکول گیا اور گھر پر امی کو ٹی وی والوں کی کال آئی۔ ہمیں نہیں معلوم انہیں ہمارا نمبر کس نے دیا تھا۔ ٹی وی والوں نے بتایا کہ آپ کا بیٹا وائرل ہو گیا ہے، اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر کافی پسند کی جا رہی ہے۔ زاہد کہتے ہیں کہ مجھے کافی سارے اسکولوں سے آفر آئی تھی، سر باسم بھی آئے تھے، امی کہنے پر سر باسم کے اسکول میں داخلہ لے لیا۔ اس طرح سر باسم بلامعاوضہ پڑھاتے ہیں۔ زاہد جب اسکول جایا کرتے تھے تو انہیں فیس کے حوالے سے مسائل کا سامنا تھا مگر اب وہ کہتے ہیں کہ فیس کا مسئلہ بالکل نہیں ہوتا ہے۔ زاہد تعلیم اگرچہ مفت میں حاصل کر رہا ہے مگر گھر کا خرچہ پورا کرنے کے لیے اب بھی زاہد سموسے بیچتا ہے۔ زاہد کی والدہ اپنے بیٹے پر بے حد ناز کرتی ہیں اور وہ بیٹے سے خوش بھی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ زاہد مدرسہ سے آکر آدھا گھنٹہ آرام کرتا ہے اور پھر میں زاہد کو آواز دیتی ہوں تو وہ تھال کو لے کر سموسے فروخت کرنے چلا جاتا ہے۔ کبھی کبھی زاہد کا موڈ نہیں ہوتا جانے کا، تو میں اسے دو سے تین بار آواز دیتی ہوں۔ بالکل ایسے ہی جیسے کسی کو زبردستی بھیجا جاتا ہے۔ انڈیپینڈینٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں والدہ کا مزید کہنا تھا کہ جب شروعات میں زاہد کو گھر آنے میں دیر ہوتی تھی تو مجھے فکر ہوتی تھی کہ کہاں رہ گیا، اتنی دیر ہو گئی ہے۔ مجھے بُرے خیالات ذہن میں آتے تھے۔ کدھر ہوگا، کہیں کو اٹھا کر تو نہیں لے گیا یا کہیں سو تو نہیں گیا۔ والدہ کہتی ہیں کہ زاہد کے سموسوں کے پیسوں سے گھر کا خرچ اور بیٹے کا خرچ نکل جاتا ہے۔