آمدن سے زائد اثاثے پوری دنیا میں جرم تصور ہوتے ہیں، چیف جسٹس پاکستان

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ نے ریمارکس میں کہا کہ آمدن سے زائد اثاثے پوری دنیا میں جرم تصور ہوتے ہیں، عالمی معیاراورمقامی قانون کے تناظر میں نیب ترامیم کا جائزہ لیں گے۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
وکیل عمران خان، خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ کابینہ اور ورکنگ ڈویلپمینٹ پارٹیز کے فیصلے بھی نیب دائرہ اختیار سے نکال دیے گئے ہیں جس پر عدالت نے کہا کہ کمیٹیوں اور کابینہ میں فیصلے مشترکہ ہوتے ہیں، مشترکہ فیصلوں پر کیا پوری کابینہ اور کمیٹی کو ملزم بنایا جائے گا؟ پوری کابینہ یا کمیٹی ملزم بنے گی تو فیصلے کون کرے گا؟چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال نے کہا کہ ہر کام پارلیمان کرنے لگے تو فیصلہ سازی کا عمل سست روی کا شکار ہوجائے گا۔ ایل این جی معاہدے کے حقائق دیکھے بغیرکیس بنایا گیا تھا۔ ایل این جی سطح کے معاہدے حکومتی لیول پر ہوتے ہیں۔ کئی بیوروکریٹ ریفرنس میں بری ہوئے لیکن انہوں نے جیلیں کاٹیں۔ بعض اوقات حالات بیوروکریسی کے کنٹرول میں نہیں ہوتے۔
خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ حالیہ نیب ترامیم انسداد کرپشن کے عالمی کنونشن کے بھی خلاف ہیں۔عدالت نے کہا کہ آمدن سے زائد اثاثے پوری دنیا میں جرم تصور ہوتے ہیں۔ عالمی معیاراورمقامی قانون کے تناظر میں نیب ترامیم کا جائزہ لینگے۔جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا نیب سے بچ نکلنے والے کسی اور قانون کی زد میں آسکتے ہیں؟وکیل عمران خان نے جواب دیا کہ اختیارات کے ناجائز استعمال کیلئے کوئی اور قانون موجود نہیں ہے، نیب ترامیم کے بعد پچاس کروڑ سے زائد کی کرپشن ثابت کرنا بھی ناممکن بنا دیا گیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نیب ترامیم سے سسٹیمیٹک کرپشن کو فروغ ملے گا۔ ترمیم سے اجازت دی گئی کہ وہ مالی فائدے لیں جو نیب قانون کے زمرے میں نہ آئیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ ترمیم کے بعد مالی فائدہ ثابت ہونے پر ہی کارروائی ہوسکے گی۔ اختیارات کے ناجائز استعمال کیلئے عوامی عہدیدار کا براہ راست فائدہ لینا ثابت کرنا ہوگا۔ عوامی عہدیدار کے فرنٹ مین اور بچوں کے مالی فائدے پر بھی کیس نہیں بنے گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا نیب ترمیم شدہ قانون موجودہ حالت میں 1999 میں آتا تو چیلنج ہوتا؟وکیل عمران خان نے جواب دیا کہ قانون پر عملدرآمد میں نقائص سامنے آنے پر ہی اسے چیلنج کیا جاتا ہے۔ مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کیلئے نیب ترامیم کی گئی ہیں۔ موجودہ حکومت کے آنے کا پہلا ٹارگٹ ہی اپنے نیب کیسز ختم کرنا تھا۔ کیا نیب تحقیقات پر خرچ اربوں روپے ضائع ہونے دیے جائیں؟ کیا احتساب عدالتوں کے ججز پر شک ہے کہ وہ انصاف نہیں کرتے؟
سپریم کورٹ نے مزید سماعت آئندہ منگل تک ملتوی کردی۔خواجہ حارث نے دلائل میں کہا کہ بے نامی دار کا کوئی اور قانون نہیں ہے۔ آمدن سے زائد اثاثہ جات کا نیب لا کے علاؤہ کوئی اور قانون نہیں۔ کرپشن 50 کروڑ سے زائد ہو تو تب قانون حرکت میں آئے گا۔جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا کوئی اور قانون لاگو نہیں ہوگا۔
عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ نیب سے جو ایک دفعہ نکل گیا پھر اس کا کہاں احتساب ہوگا۔ عوامی عہدے رکھنے والوں کے کیسز اس زمرے میں آتے ہیں۔ کوئی اور فورم ہوگا جہاں ان کا احتساب ہوسکتاہے۔جسٹس منصورعلی شاہ نے عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 1999 والا نیب لا اگر آج آتا تو کیا آپ اسے چیلنج کرتے۔ قانون ساز قانون لاتے ہیں اور قانون تبدیل کرنا انکی ذمہ داری ہے۔ قانون سازوں کو آزدی دی گئی ہے، قانون بنانا، تبدیل کرنا پارلیمان کی ڈومین ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے مذید کہا کہ جب 1999 میں نیب قانون آیا تو کیا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوئی تھی۔ اب قانون لایا گیا تو آپ کہتے ہیں کہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی۔خواجہ حارث نے کہا کہ پہلے فیصلے اجتماعی ہوتے تھے لیکن اب انفرادی طور پر ہورہے ہیں۔ صوبائی ڈویلپمنٹ سے متعلق کمیٹیاں بنی ہوئی ہوتی تھیں جہاں اربوں روپے کے پراجیکٹس دیکھے جاتے تھے۔ لیکن اب انفرادیت اجتماعیت پر غالب آگئی ہے۔چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ اگر کمیٹی پر قانونی گرفت آتی ہے تو معاملہ پارلیمان کو بھیجا جاتا ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ہمارا کلچر یہ ہے کہ تمام معاملات سیاسی پارٹیاں طے کرتی ہیں۔ عوام کا خیال کون کرے گا۔ عدالت نے عوام کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ ہمیں بنیادی نکات دیں معمولی نکات کی بجائے بنیادی نکات ہمیں درکار ہیں۔ ایسے نکات دیں جس سے واضح طور پرثابت ہو کہ نیب ترامیم سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ آپ کے نکات سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ثابت شد ہوں۔عدالت نے کہا کہ یہ نہ ہو کہ ہمیں تحقیق کرنی پڑی کہ نیب ترامیم سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ثابت ہوئی ہے یا نہیں۔