دشواریوں کے باجود بلوچستان کی خاتون صحافی کا مثالی کردار
رپورٹ: عبدالکریم
بلوچستان میں خواتین صحافی مختلف مشکلات کا بیک وقت سامنا کررہے ہوتی ہیں ۔ ایک دفعہ تو بمشکل انہیں گھر سے کام کرنے کی اجازت مل جاتی ہے لیکن اگر اجازت مل بھی جائے تو خاندان والوں کی باتیں انہیں سننی پڑتی ہیں ۔ جب وہ کام کی جگہ جاتی ہیں تو انہیں اپنےساتھیوں سے ہراساں ہونے کا خطرہ رہتا ہے ۔ جب وہ فیلڈ پر جاتی ہے تو لوگوں کی بری نظریں اور گندی باتیں ان کا پیچھا کررہی ہوتی ہیں ۔ اس کے ساتھ انھیں آن لائن
ٹرولنگ اور ہراسگی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
بلوچستان ایک قبائلی معاشرہ ہے اس معاشرے میں بیشتر خواتین کا کرادرگھر تک محدود ہے سکرین پر آنا تو دور کی بات ہے۔ یہ وہ عوامل ہے جس کی وجہ سے خواتین صحافی فیلڈ میں بہت کم آتی ہیں اور جب ایک آدھ آ بھی جائیں تو وہ بہت جلد صحافت چھوڑ کر گھر میں بیٹھ جاتی ہے۔
بلوچستان میں خواتین کی تعداد میڈیا میں نہ ہونے کی برابر ہے ۔یہاں بلوچستان میں خواتین کا میڈیا میں کام کرنا صحیح تصور نہیں کیا جاتا۔
لیکن رانی واحدی نے اسی معاشرے میں رہتے ہوئے خطرات اور دباو کے باوجود ہمت نہیں ہاری اور صحافت سے منلسک رہتے ہوئے ہوئے اپنی ساتھی صحافیوں کیلئے مثال قائم کی ۔ رانی واحدی کا تعلق کوئٹہ سے ہے وہ بلوچستان کی خاتون ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں ، اس کے ساتھ وہ جرمنی کے سرکاری خبررساں ادارے ڈوئچے ویلے اردو کے ساتھ منسلک ہے ۔ رانی واحدی بلوچستان کی دور دراز علاقوں تک سفر کرتی ہیں اور وہاں کہانیاں ڈھونڈ کر دنیا کی سامنے لاتی ہیں ۔ رانی واحدی کہتی ہے بلوچستان جو کہ ایک شورش زدہ ہے ۔ یہاں صحافت کیلئے ایک حفاطتی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ ان کی ادارے کی طرف سے انھیں کوئی تربیت فراہم نہیں گئی ہے اور نہ کوئی معاونت ملی ہے
رانی واحدی کے بقول : انہوں نے کئی مسائل پر بلاگز لکھے جس کے بعدانہیں دھمکیاں ملیں اور انھیں اپنے بلاگز ڈیلیٹ کرنے پڑے ۔ ان کی مطابق 2018 میں انہوں نے دارالامان کوئٹہ میں موجود خواتین کی انٹرویوز کئے ان کو ایک بلاگ کی شکل میں لکھ کر اپنے بلاگ پوسٹ پر شئیر کردیا جس کے بعد انھیں پرائیوٹ نمبرز سے فون کالز آنے شروع ہوگئے انھیں دھمکایا گیا ۔ جس کے مجبورا اسے اپنا بلاگ حذف کرنا پڑا ، اس بلاگ کے بعد انہوں پھر کوئی بلاگ نہیں لکھا ۔ ان کے بقول انہوں نے اپنے نگران کے علاوہ کسی سے اس بابت بات نہیں کی ۔ ان کے نگران نے انھیں بلاگ ڈیلیٹ کرنے کو کہا تاکہ وہ ممکنہ نتائج ذہنی ہراسگی سے محفوظ رہیں ۔
حال ہی میں وہ سترہ جون کو پنجگور گئی تھی جہاں ان کے ساتھ ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا ۔ ان کی مطابق وہ سٹوری کےحوالے سے انٹرویو کررہی تھی کہ اس دوران سیکورٹی اداروں کے اہلکار ان کے پاس آئے اور ان سے ان کا کیمرہ اور دیگر سامان اپنے قبضے میں لے لیں اور ان سے کام بند کرنے کو کہا جس کی وجہ سے انہیں نے اپنی سٹوری ادھوری چھوڑنی پڑی ۔
رانی کے مطابق ان کا فون ٹریس ہوتا ہے ۔ اور انھیں یہ بات اس وقت معلوم ہوجاتی ہے جب وہ کسی سفارتخانے کسی کام کیلئے فون کرتی ہے تو فورا اس کے بعد نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوجاتی ہے ۔ جس کی رجہ سے انہیں ہمیشہ ڈر لگا ریتا ہے۔ رانی کے بقول وہ حالات کو سمجھتی ہیں لیکن انہیں ہمیشہ اپنے خاندان کی فکر رہتی ہے کہ کہیں انکی وجہ سےانکے خاندان کو نقصان نہ پہنچے۔
رانی کے مطابق جب اسے نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوتی ہے تو ان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ان میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ اسے سن لے ۔ ایک طرح سے ذہنی دباو رہتا ہے انسان کب تک یہ دباو سہتا رہے گا ۔ رانی واحدی کے مطابق آج تک انہوں نے اس لئے کسی بھی واقعے کی ایف آئی ار درج نہیں کروائی ہے کیونکہ یہ ایک طویل عمل ہے اگراس کام میں پڑگئی تو پھر کام نہیں کرسکیں گی۔ بلوچستان میں کام کرنا آسان نہیں، ویسے بظاہر تو ہم کہتے ہیں کہ ہم مضبوط ہے لیکن ہے نہیں اور نا ہی چاہتے کہ اپنے لیئے اور مشکلات پیدا کریں جس کے باعث بہت سی کہانیں سامنے نہیں آپاتیں
بلوچستان یونین اف جرنلسٹ کے جنرل سیکرٹری مںظوراحمد کے مطابق بلوچستان کی تناظر میں دیکھا جائے تو شعبہ صحافت بہت کھٹن ہے اور گزشتہ دو دہائی سے اور بھی مشکل ہوا ہے۔ یاد رہے یہاں بلاامتیاز مرد اور خواتین دونوں کیلئے مشکل رہا ہے ۔
مںظور احمد کے بقول : خواتین صحافیوں جب فیلڈ پر جاتی ہیں تو لوگوں کا رویہ ان کی کے ساتھ مثبت نہیں ہوتا ۔ ان پر جملے کسے جاتے ہیں ۔جس کی وجہ سے خواتین صحافی دلبرداشتہ ہوجاتے ہیں ۔ اور آہستہ آہستہ وہ فیلڈ صحافت چھوڑنے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔
۔
بلوچستان قبائلی روایتوں میں جکڑا ایک پسماندہ صوبہ ہے ۔ یہاں خواتین کا شرح خواندگی انہتائی کم ہے لیکن رانی واحدی کی طرح کہیں خواتین مشکلات کی باوجود صوبے کی ترقی کے عمل میں کردار ادا کررہی ہیں ۔
بلوچستان یونین اف جرنلسٹ میں اس وقت صرف چار خواتین صحافی باقاعدہ ممبر اراکین ہے ۔
سید علی شاہ بلوچستان میں خواتین صحافیوں کی مشکلات کی بنیادی وجہ مرادنہ معاشرے کو قرار دیتے ہیں۔
سید علی شاہ بلوچستان کے سینئر صحافی ہے ۔ وہ ترکی کے سرکاری خبررساں ادارے ٹی ار ٹی سے وابستہ ہے ۔ وہ خواتین صحافیوں کی کم تعداد کی وجوہات کے بارے میں کہتےکہ لڑکیاں جامعات میں ابلاغیات کی شعبے میں پڑھنے تو آجاتی ہیں ۔ لیکن فیلڈ میں نہیں آتی۔ یہاں آپ جہاں بھی جائے مرد ہی مرد نظر آئیں گئے ، یہاں تک بلوچستان کی سیکولر جمہوری پارٹیوں میں خواتین ونگز تک نہیں ہے ۔ تو اس سے آپ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ بلوچستان میں خواتین صحافیوں کیلئے کام کرنا کتنا مشکل ہے۔
ببرک نیاز جامعہ بلوچستان کے شعبہ ابلاغیات کے سربراہ ہیں ہ وہ سمجھتے ہے کہ بلوچستان میں خواتین صحافیوں کیلئے فیلڈ کا ماحول سازگار نہیں ہیں ۔اس کی ایک وجہ فیلڈ میں خواتین کو سازگار ماحول کیلئے سہولیات درکارکا ناپید ہونا ہے ۔ اس کے ساتھ ببرک نیازقبائلی نظام کو بھی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ان کے مطابق بلوچستان ایک قبائلی نظام کے تحت چل رہا ہے ۔ بلوچستان میں لڑکیاں بہت کم تعلیم حاصل کرتی ہیں اور جو اعلی تعلیم حاصل کربھی لیتی ہیں ان کو والدین اجازت نہیں دیتے کہ وہ کام کریں ۔ اس بات کا مثال دیتے ہوئے ببرک نیاز نے کہا کہ میرے گھر کی لڑکیوں نے سردار بہادر خان یونیورسٹی سے ابلاغیات میں بی ایس کیا ہوا ہے ۔ لیکن گھر کے بڑے انھیں اجازت نہیں دیتے کہ وہ فیلڈ میں کام کریں ۔ اس کے بقول ان کے گھر والوں کا ماننا ہے کہ میڈیا کا ماحول اچھا نہیں ہے اور پردہ دار خواتین کو سکرین پر نہیں آنا چاہیے ۔
ببرک نیاز کے کہتے ہے : کہ پرنٹ میڈیا میں بھی خواتین اس لیے نہیں آتی کیونکہ وہاں بھی ماحول سازگار نہیں ہوتا۔ ان کے مطابق ایک طرف کام کا ماحول سازگار نہیں ہے دوسری طرف قبائلی مشکلات ہے تو خواتین صحافیوں کو دونوں طرف دیکھنا ہوتا ہے ۔ لیکن جب خواتین صحافیوں کو کچھ سمجھ نہ آئے تو وہ کام چھوڑنے پر مجبورہوجاتی ہیں ۔
ببرک نیاز نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا مالکان کو اس طرف دیکھنا چاہیے کیونکہ بلوچستان کا ماحول ملک کے دیگر علاقوں سے مختلف ہے تو لہذا یہاں کے ماحول کے مطابق خواتین صحافیوں کیلئے سازگار ماحول فراہم کیا جائیں ۔
فرح عظیم شاہ حکومت بلوچستان کی ترجمان ہیں وہ سمجھتی ہے کہ نہ صرف صحافت بلکہ ہر شعبے میں خواتین کو مشکلات کا سامنا ہے ۔ ہر شعبے پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
فرح بقول پہلے کے بلوچستان اور اب کے بلوچستان میں بہت فرق ہے اب لوگوں میں آگاہی آرہی ہے ۔ حکومت بلوچستان کی ترجیحات میں خواتین کو بااختیار بنانا شامل ہے ۔ اس بابت حکومت بلوچستان کی بہت سے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ انہی میں خواتین صحافیوں کی ترقی کا منصوبہ نہیں ہے۔
۔
یاد رہے بلوچستان قبائلی روایتوں میں جکڑا ایک پسماندہ صوبہ ہے ۔ یہاں خواتین کا شرح خواندگی انہتائی کم ہے لیکن رانی واحدی کی طرح کہیں خواتین مشکلات کی باوجود صوبے کی ترقی کے عمل میں کردار ادا کررہی ہیں