نشاندہی کے باوجود کراچی میں جعلی پلیٹ لیٹس کی خرید و فروخت جاری

کراچی (قدرت روزنامہ)سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کو نشاندہی کیے جانے کے باوجود کراچی میں جعلی پلیٹ لیٹس کی خرید و فروخت جاری ہے، اتھارٹی کے افسران غیر معیاری بلڈ بینکس کے خلاف کارروائی کے بجائے میڈیا سے ہی ثبوت مانگنے لگے۔
 شہر میں ڈینگی بخار کے پھیلاؤ اور میگا پلیٹ لیٹس کے بحران کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بلڈ بینک مافیا کراچی میں کھلے عام جعلی پلیٹ لیٹس فروخت کر رہے ہیں جبکہ متعلقہ ادارے بھی صورتحال جانتے ہوئے خاموش تماشائی بنے بیھٹے ہیں۔ڈینگی نے ہنگامی صورتحال پیدا کردی ہے، شہر کے نجی اور سرکاری اسپتالوں میں موجود بیڈز بھی کم پڑ چکے ہیں، ایسے میں اسپتال صرف ان مریضوں کو داخل کررہے ہیں جن کے پلیٹ لیٹس کی سطح 50 ہزار سے کم ہو اور مزید خون بہہ جانے کے خدشات بھی موجود ہوں۔ سرکاری اسپتال میں روزانہ کی بنیاد پر ڈینگی کے 20 سے 30 مریض آرہے ہیں جن میں سے 10 سے 15 مریض تشویش ناک حالت میں ہوتے ہیں۔
دوسری جانب شہر میں حسینی، آغا خان، لیاقت نیشنل سمیت ایسے چند ہی بلڈ بینکس ہیں جہاں پر میگا پلیٹ لیٹس فروخت کیے جاتے ہیں، جبکہ میگا پلیٹ لیٹس تیار کرنے والی مشین اور کٹس مہنگی ہوتی ہے۔طبی ماہرین شہریوں میں مسلسل آگاہی پیدا کرنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تجویز دیے رہے ہیں، شہری ڈینگی بخار کے خوف سے نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں، اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر معیاری بلڈ بینکس کی چاندی ہوگئی ہے۔
سرکاری اسپتالوں کے باہر بلڈ بینک مافیا کے نمائندے منافع خوری پر اتر آئے ہیں، میگا پلیٹ لیٹس کی مد میں 31-40 ہزار جبکہ میول پلیٹ لیٹس کی ایک بوتل 2500 میں فروخت کی جارہی ہے۔ایکسپریس کی ٹیم نے بلڈ بینک مافیا کا کھوج لگانے کے بعد اس کی خبر نشر کرکے سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اٹھارٹی اور متعلقہ حکام کو نشاندہی کی تو سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اٹھارٹی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر در ناز جمال ایکسپریس کی ٹیم کو ہی تحقیق کرنے کی تجویز دینے لگیں۔
 15 اکتوبر کو خبر نشر کی گئی تھی، متعدد روز گزر جانے کے باوجود کاروائی تو دور لیکن تفتیشی عمل بھی شروع نہیں کیا گیا۔طبی ماہرین کی جانب سے شہریوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ غیر معیاری اور جعلی پلیٹ لیٹس لگانے سے ڈینگی کے مرض میں مبتلا افراد کی حالت مزید غیر ہوسکتی ہے کیوں کہ جعلی بلڈ بینکس خون کے نمونوں کا ٹیسٹ بھی نہیں کرتے ہیں، اس سے خون کے امراض کے پھیلاؤ کے خطرات میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔
اس حوالے سے سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر در نار جمال نے کہا کہ ہمیں جو ثبوت ملے ہیں اس کی ویری فکیشن کرنے میں مصروف ہیں، ماضی میں میڈیا نمائندگان نے ہمارے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ہم سے جعلی چھاپے پڑواکر اپنی دشمنی پوری کی جس کے سبب ہمیں حکام بالا کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اس لیے اب ہم پختہ ثبوت کا انتظار کررہے ہیں۔