آخری بار جارہاتھاتومیری آنکھوں میں آنسوتھے ،دل میں شہیدکی ماں ہونے کااحساس تھا۔۔شہید نوجوانوں کی کہانی ،جن کے والدین بتاتے ہوئے روپڑے

اسلام آباد (قدرت روزنامہ)شہادت ایک ایسارتبہ ہے جوکہ خاص بندوںکوہی ملتاہے اورپاکستان آرمی کاہرجوان ان مرتبے تک پہچنے کے لیے بے تاب رہتاہے یہی وجہ ہے کہ دشمن اس ملک کوآج تک وہ نقصان نہیں پہنچاسکا جس کااعادہ کیے ہوئے ہے۔دشمن کی ہرچال کوپاک فوج کے جوانوں نے اپنی جان قربان کرکے ناکام بنایاہے ۔کچھ ایسے ہی جوانوں کے بارے میں بتائیں گے۔کیپٹن عمراللہ عباسی شہید۔کیپٹن عمیراللہ کاشمار پاک فوج کے ان جانباز جوانوں میں ہوتاہے جواس ملک پراپنی جان قربان کرنے کوتیارتھےجوانہوں نے عملاًکردکھایا۔28فروری 2016کوشمالی وزیرستان میں مفرور دہ ش ت گردوں کے خلاف آپریشن کیا۔گیااس آپریشن میں 19دہ ش ت گردوں کوجہنم واصل کردیاگیاجبکہ ہمارے 4جوان بھی شہیدہوئے تھے ۔ان شہید جوانوں میں سے ایک کیپٹن عمیراللہ عباسی بھی تھے ،عمیر ایک ایساجوان تھاجس کے لیے موت کالفظ استعمال نہیں ہوابلکہ وہ شہادت کے رتبے تک پہنچ گیا۔ایک بہترین بھائی ۔فرماں برداربیٹا اورباصلاحیت جوان ،آخری دم تک دشمن کوناکام کرنے کاجذبہ رکھتاتھا۔عمیر کے والد کہتے ہیں کہ جب بیٹے کی پوسٹنگ شمالی وزیرستان میں ہوئی تومجھے کوئی خوف نہیں تھا، میں نے بیٹے کو ایک ہی جملہ کہا کہ بیٹا اگر جا رہے ہو تو فرنٹ لائن پر رہ کر لڑنا، تم اس ملک کے جوان ہو۔ مجھے فخر ہے میرے بیٹے نے ثابت کیا ہے کہ شہید ہو کر دہ ش ت گردوں کو ان کے عزائم میں ناکام بنا کر شہید ہوا۔ مجھ سے جب بھی کوئی پوچھتا ہے تو میں یہی کہتا ہوں میں میرا ایک بیٹا شہید ہے جب کہ دوسرا بینا غازی۔عمیر کے والد کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت ہمارے احساسات کچھ اس طرح ہیں کہ ہم میں لپٹی خوشی ہے، اورخوشی میں لینا غم ہے۔کیپٹن عمیر کی والدہ کہتی ہیں کہ میرا بیٹا ایک باکمال بیٹا تھا، یہ بات کرتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسونکل رہے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ عمیر میرا بیٹا ہی نہیں بلکہ میرا دوست تھا، اس سے میں اس حد تک قریب تھی کہ وہ ساری شکایتیں مجھ سے کرتا، ساری باتیں مجھ سے شئیر کرتا تھا۔آرمی میں جو ٹیگ وار دیا ہے وہ جب بیٹے کو ملا تو بیٹے نے کہا کہ امی یہ کارڈ آپ مجھے بتائیں، میں نے وہ کارڈ پہنایا، اور پھر ہر روز مجھے دکھاتا تھا کہ دیکھیں امی یہ کارڈ میں لے نہیں اتارا۔ بے کارڈ تب اترے گا جب میں شہید ہو کر آونگا والدہ کہتی ہیں کہ وصیت کے عین مطابق عمیر کا وارٹیگ اس کے ساتھی جوان نے مجھے لاکر میرے ہاتھ میں دیا، جو میں نے اپنے گلے میںڈال لیا ہے۔ اس وار ٹیگ میں میرے بیٹے کا خون لگا ہوا تھا، مجھے اس وار ٹیگ میں اپنے بیٹے کا احساس آج تک آتا ہے آپ میرے گلے میں ہے وارٹیگ اس وقت ہی اترے گا جب میں وفات پائونگی ہمارے بیٹے نے ہمیں بھی عظیم بنا دیا ہے۔ والدہ کا مزید کہنا تھا کہ جب میرے بیٹےکی شہادت کی خبر ملی تو میرے صرف ایک ہی الفاظ تھے، الحمد اللهاور یہ الفاظ بے ساختہ میری زبان سے نکلے تھے۔سید ارتضیٰ شہید۔سوات سے تعلق رکھنے والے بہادر سپوت ارتضی ٰنے بچین ہی میں شہادت کا خواب دیکھ لیا تھا، لیکن ارتضیٰ کےگمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن یہ خواب سچا ثابت ہوگا۔ سوات سے تعلق رکھنے والا یہ بہادر جوان بچپن سے ہی ہونہار تھا، پاکستان ائیر فورس میںنظر کمزور ہونے کے باعث سیلیکشن نہ ہو سکی۔ دراصل یہ شہادت کی راہ کی طرف جانے کے لیے ایک اور قدم تھا، جسے ارتضیٰ نے بخوبی پورا کیا، والد کا اصرار تھا کہ تم انجینئرنگ کرلو، لیکن ارتضی ٰبضد تھا کہ مجھے پاک فوج میں ہی جانا ہے، ارتضیٰ کے اس جذبے نے اسے شہادت جیسے رتبے تک پہنچا دیا تھا۔کاکول اکیڈمی سے گریجویٹ کرنے والے ارتضیٰ کی تعیناتی رحیم یار خان میں ہوئی ایک موقع پر والد سے بات کرتے ہوئے ارتضی ٰشہید کافی اداس تھے، جس پر والد نے وجہ پوچھی ارتضیٰ نے کہا میرے روم میٹ نے جام شہادت نوش کیا ہے۔ ارتضیٰ کی اداسی نے والد کو بھی خاموش کر دیا تھاشہادت والے دن سے ایک روز پہلے شہید جوان کے گھر والوں سے اپنے لیےدعا کی درخواست کی تھی مگر کیا معلوم تھا کہ یہ ملاقات آخری ملاقات ہوگی، اس ملاقات کے بعد ارتضی ٰشہید اب شہادت کے مرتبے تک پہنچ جائے گا۔ارتضیٰ کی والدہ کہتی ہیں کہ ارتضی ٰہر چیز ہم خود کرتے تھے،تسمے تک ہم باندھتے تھے، ارتضی ٰکی والدہ ارتضی ٰکا یونیفارم دکھاتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں، وہ کہتی ہیں کہ یہ میرے بیٹے کی یادیں ہیں۔ مزید کہا کہ جب ارتضیٰ کی پنشن آتی ہے، میں ارتضی ٰکے یونی فارم کے کورٹ میں رکھ دیتی ہوں، جب مجھے ضرورت ہوتی ہے میں اس میں سے لے لیتی ہوں، میں انہیں سجھتی ہوں کہ میرا بیٹا پاک فوج میں ہے اور اس کی تنخواہ آرہی ہےارتضی ٰکے والد جب بھی افسردہ ہوتے ہیں تو میں ایک ہی بات کہتی ہوں ان سے کہ آپ کو یاد ہے ارتضی ٰآپ کو دیکھ رہا ہے، وہ پریشان ہوگا کہ ابو کیوں رو رہے ہیں ان شہیدوں نے شہید ہو کر بھی دشمن کو ناکام بنا دیا اور دشمن مر کر بھی فدا ہو گیا۔