افغانستان میں کیسی حکومت ہونی چاہئے ؟ مشاہد حسین سید نے تاریخی حوالے دیتے ہوئے کھل کر اپنی رائے دے دی
انہوں نے کہا کہ افغانستان سپرپاورز کا قبرستان ثابت ہوا ہے، نام نہاد دہشتگردی کیخلاف جنگ میں امریکہ نے ساڑھے چھ کھرب ڈالر جھونک دیے،عراق، افغانستان، لیبیا، شام اور پاکستان میں لڑی گئی اس جنگ میں 8لاکھ لوگ لقمہ اجل جبکہ ساڑھے تین کروڑ افراد بے گھر ہوئے، امریکہ نے بیس برسوں میں افغانستان میں 2.2ٹریلین ڈالرز خرچ کئے جو ماہانہ سو ارب ڈالر بنتے ہیں، اس دوران امریکہ کے پچیس ہزار فوجی ہلاک یا زخمی جبکہ اڑھائی لاکھ افغانی جاں بحق ہوئے،امریکہ نے بھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا ، اس طرح گزشتہ تین صدیوں میں تین سپرپاورز کو افغانستان میں شکست ہوئی،انیسویں صدی میں 1842ءکو برطانیہ نےاپنی 28 ہزار فوج کے ساتھ افغانستان پر حملہ کیا لیکن ایک ڈاکٹر کے سوا سب افغانوں کے ہاتھ ہلاک ہوگئے، بیسویں صدی میں 1979ءمیں روس نے اپنی پچاسی ہزار فوج کے ساتھ افغانستان پر حملہ کیا ، اس جنگ میں اسکے پچاس ہزار فوجی ہلاک ہوئے ، روس کو پچاس ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑاجبکہ پچاس لاکھ افغان بے گھر ہوئے, 1979ءسے 2021ءیعنی 42سال سے افغانستان میدان جنگ بنا ہوا ہے, 7اکتوبر2001ءکو امریکہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا ، ابھی انہوں نے افغانستان پر اپنا قبضہ مستحکم نہیں کیا تھا کہ مارچ2003ءکو اس نے عراق پر حملہ کر دیا, امریکی عزائم بڑے جارحانہ تھے,30جنوری 2003ءیعنی عراق پر حملہ سے بھی قبل امریکی صدر بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے درمیان ہونیوالی گفتگو کے ریکارڈ کے مطابق عراق کے بعد ان کا اگلا نشانہ ایران ، سعودی عرب، پاکستان اور شمالی کوریا تھے,اس گفتگو میں سعودی عرب اور پاکستان کا نام بھی لیا گیا حالانکہ یہ اس کے حلیف ممالک تھے . سینیٹر مشاہدحسین سیدنےکہاکہ امریکہ نےافغانستان پر قبضہ کے بعد کابل میں ایک پلانٹڈ حکومت قائم کی جو پاکستان مخالف تھی، افغانستان کی خفیہ تنظیم این ڈی ایس، را کی ذیلی تنظیم بن کر رہ گئی جنہوں نے مل کرپاکستان میں دہشتگردی کے کئی واقعات کروائے،بھارت پاکستان میں دہشتگردی کیلئے 87 ٹریننگ کیمپس چلا رہا تھا جن میں 66افغانستان اور21بھارت میں تھے،اس وقت بھارت میں صفِ ماتم اس لئے بچھی ہوئی ہے کہ افغانستان کی صورت میں ان کے پاس جو ایک اڈا تھا وہ ختم ہو گیا ہے . انہوں نےکہاکہ افغانستان کی وحدت اور اس کی سالمیت، آزادی و خودمختاری کا مضبوط اور اسکا برقرار رہنا پاکستان کے قومی مفاد میں ہے،اس سلسلےمیں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہئے، پاکستان کا سفارتخانہ کابل میں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہےسب کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، علاقائی اپروچ کو سامنے رکھتے ہوئے روس، ترکی، ایران، وسطی ایشیائی ریاستوں سے مشورہ کر کے آگے بڑھیں، افغانستان میں ہمارا کوئی فیورٹ نہیں ہے جسے افغان عوام آگے لائیں گے ان سے ہم برادرانہ تعلقات قائم کریں گے . مشاہد حسین سید نے کہا کہ چین کے اس وقت دو مفادات افغانستان سے جڑے ہیں ، ایک تو افغان سرزمین اس کیخلاف استعمال نہ ہو اور دوسرے افغانستان بھی سی پیک اور بیلٹ روڈ انشی ایٹو منصوبے کا حصہ بنے، اس شکست کے امریکہ پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ امریکہ کی توہین ہوئی ہے ،افغانستان میں نئی حکومت کو سب سے بڑا چیلنج امن وامان کی بحالی کا ہو گا،پرامن بقائے باہمی اصول کے تحت نئی حکومت کو خوش آمدید کہتے ہیں ،افغان قیادت فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر آگے بڑھے تو روشن صبح کی کرن ضرور طلوع ہو گی . . .