مختلف کینسر کو 12 مرتبہ شکست دینے والی خاتون پر ماہرین حیران

بارسلونا(قدرت روزنامہ) دنیا طبی عجائبات سے بھری ہوئی ہے اور اب دنیا کی معلومہ تاریخ کا پہلا کیس سامنے آیا ہے جس میں ایک خاتون کئی اقسام کے کینسر کی 12 مرتبہ شکار ہوئیں، ہر بار کینسر کو شکست دی اور اب بھی زندہ اور تندرست ہیں۔ اب ماہرین کی ایک ٹیم خاتون پر تحقیق کر رہی ہے کیونکہ اس سے ہی سرطان کے خلاف علاج کی راہیں کھل سکتی ہیں۔
36 سالہ ہسپانوی خاتون کا معاملہ بہت ہی پراسرار ہے کیونکہ اب تک وہ 12 مختلف اقسام کے سرطان کی شکار ہوچکی ہیں اور سب سے پہلے انہیں دو برس کی عمر میں سرطان کے آگھیرا تھا، لیکن اس عمر میں بھی وہ علاج کے بعد زندہ رہیں۔پھر 15 برس کی عمر میں انہیں بچہ دانی کا سرطان ہوا اور یہاں بھی انہوں نے شفا پائی۔ پھر 20 برس کی عمر میں منہ میں لعاب بنانے والے غدود میں سرطان پھیلا جنہیں جراحی سے نکالا گیا۔ اس کے بعد انہیں ٹھوس اور لجلجی ہڈیاں ملانے والے ٹشوز کا کینسر (سارکوما) ہوا۔
لیکن کینسر ان کے پیچھے دوڑتا رہا اور وہ 20 سے 30 برس کے درمیان کئی مرتبہ سرطان کی شکار رہیں۔ اس دوران ان کے جسم میں مزید 12 رسولیاں بنیں جن میں سے 5 کینسر سے بھری ہوئی تھیں۔ اب خاتون کے اہلِ خانہ کی اجازت سے بین الاقوامی ماہرین کی ایک ٹیم ان پر تحقیق کر رہی ہیں اور جسمانی نمونے لیے گئے ہیں۔ پہلے مرحلے میں جسم کے اندر موجود جینیاتی تبدیلیوں اور جینوم کا بھی تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔ابتدائی تحقیق سے معلوم ہوا کہ خاتون میں ایک غیرمعمولی کم یاب جینیاتی تبدیلی ہے جو کینسر کی وجہ بنتی ہے۔ یہ جین ایم اے ڈی ون ایل ون ہے جس کی دونوں کاپیوں میں گڑبڑ ہے اور سائنس اس سے ناواقف ہی تھی۔
ایک اے ڈی ون ایل ون جین خلوی تقسیم سے قبل کروموسوم کی ترتیب بندی میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن پہلے خیال تھا کہ یہ سرطانی رسولیوں کو روکنے کا کام کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی دونوں نقول میں بدلاؤ پہلے نہیں دیکھا گیا تھا۔ چوہوں میں کبھی کبھار یہ تبدیلی ہوتی ہے جو جان لیوا ہوتی ہے لیکن انسانوں میں اس کے کردار پر ماہرین حیران ہیں۔
خاتون کے بدن میں خون کے خلیات کی 30 سے 40 فیصد تعداد میں کروموسوم کی گنتی نارمل نہیں کہ کہیں کم اور کہیں زیادہ ہیں۔ نارمل انسانوں کے ہرخلیے میں کروموسوم کے 23 جوڑے ہوتے ہیں۔ لیکن اس کی وجہ بھی معلوم نہیں ہوسکی ہے۔لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ خاتون تمام اقسام کے سرطان کو شکست دیتی رہی ہیں اور شاید اس کی سائنسی وجہ مزید تحقیق کے بعد ہی سامنے آسکے گی۔