اسلام آباد (قدرت روزنامہ)دہی قدیم زمانے سے ہی لوگوں کی پسندیدہ خوراک رہی ہے، آج کے جدید دور میں بھِی دہی دنیا کے ہر ہر کونے میں بنائی، کھائی اور پسند کی جاتی ہے . دہی کو انگریزی میں یوگارٹ کہا جاتا ہے، یوگارٹ لفظ ترکی زبان سے اخذ کیا گیا ہے .
دہی بنانے کیلئے نیم گرم دودھ میں کھٹا دہی ڈالا جاتا ہے جسے جاگ کہا جاتا ہے . جاگ میں دراصل بیکٹیریا ہوتے ہیں، وہ دودھ میں پائی جانے والی شوگر لیکٹوز کو لیکٹک ایسڈ میں تبدیل کردیتے ہیں . یہی لیکٹک ایسڈ دودھ کا دہی کا ٹیکسچر دیتا ہے اور کھٹا ذائقہ دیتا ہے .
لیکٹک ایسڈ پریزرویٹوکا کام کرتا ہے یعنی دہی کو لمبے عرصے تک تازہ رکھتا ہے اور خراب ہونے سے بچاتا ہے کیونکہ بیکٹیریا پہلے ہی دودھ کے بڑے مالیکول کو توڑ چکے ہوتے ہیں اس لیے ہمارے لیئے دہی کو ہضم کرنا آسان ہوتا ہے . اس کے علاوہ دہی معدے اور آنتوں میں موجود ہاضمے میں مدد دینے والے بیکٹیریا کی تعداد کو بڑھاتا ہے جن کی تعداد اینٹی بائیوٹکس کھانے اور معدے میں بدہضمی کی وجہ سے کم ہوجاتی ہے .
20 ویں صدی میں بلغاریہ کے ایک میڈیکل کے طالب علم Stamen Grigov نے دہی میں موجود بیکٹیریا کی نشاندہی کی .
پہلی دفعہ دہی کیسے بنایا گیا؟
کچھ تاریخ دانوں کا ماننا ہے کہ قدیم زمانے کے لوگ دودھ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جانے کیلئے جانوروں کی کھالوں اور اوجڑی سے بنے ہوئے بیگ استعمال کرتے تھے . یہ بیگ بیکٹیریا کی بڑھوتری اور دہی بنانے کیلئے سازگار ماحول مہیا کرتے ہیں .
تاریخ دانوں کے مطابق جب لوگو ں نے کئی گھنٹوں کے بعد ان بیگ کو کھولا تو وہ حیران ہوگئے کہ ان میں رکھا گیا دودھ گاڑھا اور اس کا ذائقہ کھٹا ہو گیا ہے اور زیادہ اہم یہ کہ کھٹا اور گاڑھا ہونے کے باوجود کھانے کے قابل تھا . تمام امکانات میں، دہی اسی طرح مختلف جگہوں پر مختلف اوقات میں دریافت ہوا ہوگا، اور غالبا مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا میں سب سے پہلے پیدا ہوا .