پہلے کہتے تھے پتہ نہیں کہاں جاتی ہے صبح صبح لپ سٹک لگا کر؟ عمر کوٹ کی کستوری جسے اب پورا گاؤں اپنی بہو مانتا ہے

عمرکوٹ (قدرت روزنامہ)کیا آپ نے نیٹ فلکس کی ڈرامہ سیریز ’میڈ ‘ دیکھی ہے؟ جس میں ایک شادی شدہ مگر کم تعلیم یافتہ خاتون گھریلو مشکلات سے تنگ آ کر خود کفیل ہونا چاہتی ہے۔ گھریلو اور معاشرتی دشواریوں کے باوجود وہ خود کو معاشرے میں منوانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ صوبہ سندھ کی کستوری کولھی کی کہانی بھی ’میڈ‘ کی مرکزی کردار سے کچھ حد تک ملتی جلتی ہے۔ کستوری کا تعلق ضلع عمرکوٹ تحصیل سامارو کے گاؤں لالو کولھی سے ہے۔ چند سال قبل تک وہ گاؤں کی بہت سی دیگر اُن عام خواتین کی طرح تھیں جن کے صبح و شام کھیتوں میں کام کرتے اور بچے سنبھالنے میں گزرتے۔ مگر دو سال قبل اس کی زندگی میں بدلاؤ آ گیا۔ کستوری بتاتی ہیں کہ جب ان کی شادی ہوئی تو ان کے شوہر پریم چند چنگچی رکشہ چلاتے تھے۔ سواری مل جاتی تو گھر میں گزر اوقات کے پیسے آ جاتے وگرنہ مشکل بن جاتی۔ پھر کستوری کے شوہر کی صحت خراب ہو گئی اور ڈاکٹروں نے بتایا کہ اُن کے گردے میں پتھری ہے اور ان کو آرام کا مشورے دیا جس کے بعد گھریلو حالات اور بھی خراب ہو گئے۔ کستوری بتاتی ہیں کہ ’غربت تو پہلے ہی گھر میں تھی لیکن اب کبھی کھانا ملتا تو کبھی فاقہ۔ میں نے سوچا کے میرے بھوکے بچوں کو کون کھلائے گا؟ کیوں نہ اپنے گھر والے کی تھوڑی مدد کر لوں، پڑھی لکھی نہیں تھی، مگر سوچا ماتا رانی نے جو ہمیں دو ہاتھ پاؤں دیے ہیں اس ہی سے کچھ کر کے دکھائیں۔‘
سندھ رول سپورٹ آرگنائزیشن دیہی سندھ میں کئی شعبوں میں تربیت فراہم کر رہی ہے، کستوری نے وہاں کپڑوں کی سلائی کی ایک ماہ کی تربیت حاصل کی جس کے بعد گھر گھر جا کر سلائی کے لیے کپڑوں کے آرڈر لینا شروع کر دیے۔ بقول کستوری کے جب ان کے بیمار شوہر پہلی مرتبہ موصول ہونے والے آرڈرز سلے سلائے کپڑوں کی صورت میں گاہکوں کو واپس کرنے گئے تو بیشتر خواتین کو کستوری کی سلائی پسند آ گئی اور واپسی پر انھوں نے مزید جوڑے سلنے کے لیے دے دیے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اور یوں مشین چلانے کے ساتھ ہماری زندگی کا رُکا ہوا پہیہ بھی چل پڑا اور ہماری آمدن میں بھی اضافہ ہونے لگا۔‘ کستوری پریم چند نے اپنے گھر کے ایک کمرے میں ایک دکان بھی قائم کر رکھی ہے جہاں بغیر سلائی والے کپڑوں کے ساتھ مختلف اقسام کی لیس، گوٹے اور بٹن وغیرہ موجود ہیں جبکہ چار سے پانچ خواتین صبح سے شام تک اس دکان میں سلائی کرتی ہیں۔ کستوری کا کہنا ہے کہ جب زیادہ کپڑے آنے لگے تو انھوں نے سوچا کہ کیوں نہ گھر میں اپنی دکان کھولیں، مگر اس کے لیے سرمائے کی ضرورت تھی۔
لہذا انھوں نے دوبارہ سندھ دیہی ترقی کے شعبے سے رابطہ کیا کیونکہ وہ ضرورت مند افراد کو قرضے کی سہولت فراہم کرتے تھے۔ سندھ رورل سپورٹ پروگرام سے کستوری نے دو لاکھ 90 ہزار قرضہ لیا جس سے سلائی مشینیں خریدیں اور پڑوس کی خواتین اور ایک بیوہ خاتون کو سلائی کی تربیت دی اور یوں ان کا اپنا سلائی سینٹر قائم ہو گیا۔ میرپور خاص ڈویژن کے اضلاع عمرکوٹ، تھر، سانگھڑ اور میرپورخاص میں ہندو براردری بڑی تعداد میں رہتی ہے، جو اپنا روایتی گھاگھرا چولی لباس پہنتی ہے۔ کستوری کا کہنا ہے کہ وہ ہندو رواج کے کپڑے گھاگھرا اور چولی بناتی ہیں۔ ان کے پاس ساون کے دنوں کے کپڑے بنتے ہیں جو لڑکیاں پہنتی ہیں، اس کے علاوہ دلہنوں کو جہیز میں جو کپڑے دیئے جاتے ہیں وہ انھیں بھی تیار کرتی ہیں جبکہ ان دنوں دیوالی کے تہوار کے دن ہیں اس کی مناسبت سے فیشن والے کپڑے بناتے ہیں۔ ان کے تیار کیے ہوئے کپڑے ان کے شوہر موٹر سائیکل پر تھر، میرپور خاص اور عمرکوٹ تک فروخت کرنے جاتا ہے، جو گھروں کے علاوہ دکانوں پر بھی فروخت ہوتے ہیں، کستوری کے مطابق پندرہ سو روپے سے لے کر پانچ ہزار روپے تک کی قیمت میں وہ یہ لباس بناتی ہیں جس سے وہ مہینے میں چالیس سے پچاس ہزار روپے آسانی سے کما لیتی ہیں۔ جبکہ ان کے پاس جو خواتین کام کر رہی ہیں ان کی بھی تین سے چار سو روپے روز کی آمدن ہو جاتی ہے جس سے وہ بھی بچے پال رہی ہیں۔
سامارو کے قریب واقع گاوں لالو کولھی کی آبادی ڈھائی سو گھروں پر مشتمل ہے اس گاؤں کے لوگ آج کستوری کی مثال دیتے ہیں لیکن اس سے قبل ایسا نہیں تھا۔ کستوری بتاتی ہیں کہ جب ابتدائی دنوں میں سلائی سیکھنے جاتی تھی تو گاؤں والے کہتے تھے ’پتہ نہیں کہاں جاتی ہے صبح صبح لپ سٹک لگا کر؟ شوہر بھی تنگ آ کر کہتا کہ آخر تم کب سیکھو گی؟‘ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے یقین تھا کہ میں سیکھ لوں گی، اب تو گاؤں والے کہہ رہے ہیں یہ ہماری بہو تھی جس نے ہمیں یہ کر کے دکھایا، اس نے اچھا کام کیا مضبوطی دکھائی، جو کام مرد باہر کرتے ہیں وہ عورت نے کر کے دکھایا۔‘ عمرکوٹ ضلع گذشتہ بارشوں سے شدید متاثر ہوا جس میں سامارو تحصیل بھی شامل ہیں جہاں زرعی زمین کا ایک بڑا رقبہ زیر آب آ گیا جس کی وجہ سے کاشت کاروں کے ساتھ کسانوں کو بھی نقصان پہنچا، اس سال بھی بارشوں کے باعث یہاں سبزیاں متاثر ہوئی ہیں لیکن اس صورتحال سے کستوری کا خاندان بے پرواہ ہے۔ لالو کولھی گاؤں کے دیگر گھروں میں خواتین لکڑیاں جلا کر کھانا بناتی ہیں لیکن کستوری کے گھر میں گیس سلینڈر ہے۔ ان کا گھر صاف ستھرا ہے۔ انھوں نے قسطوں پر موٹر سائیکل بھی خرید لی جس پر ان کے شوہر کپڑے فروخت کرنے جاتے ہیں اور انھیں خریداری کے لیے بازار لے جاتے ہیں جبکہ ان کے تینوں بچے پرائیوٹ سکول میں زیر تعلیم ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پہلے تو بچوں کی سکول فیس کیا، پاؤں میں پہننے والی چپل بھی نہیں ہوتی تھی لیکن اب وہ خوش ہیں۔ کستوری کا کہنا ہے کہ اگر ان کے شوہر کی طبیعت خراب نہ ہوتی تو ان کو کبھی اپنی قابلیت کی قدر نہیں ہوتی۔ ’میں نے ٹھان لیا تھا کہ میں کچھ نہ کچھ کر کے دکھاؤں گی اور میں نے وہ کر دکھایا۔‘