بلوچستان

بلوچستان سمیت ملک بھر میں سردی آتے ہی بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بے تحاشا اضافہ


عوام اور صنعتی ادارے شدید مشکلات کا سامنا کر رہا ہے ملک میں کم و بیش دس سال سے توانائی کے بدترین بحرانی صورتحال کا سامنا
کوئٹہ(قدرت روزنامہ)اہلسنت وجماعت کے رہنما ذوالفقار علی طارقی قادری نے کہا ہے کہ بلوچستان سمیت ملک بھر میں سردی آتے ہیں گیس بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور کم پریشر کی وجہ سے عوام اور صنعتی ادارے شدید مشکلات کا سامنا کر رہا ہے ملک میں کم و بیش دس سال سے توانائی کے بدترین بحرانی صورتحال کا سامنا کررہا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے طلباء کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا رسد اور طلب کے بگڑتے ہوئے اعداد و شمار نے جہاں گھریلو صارفین کی زندگی اجیرن کررکھی ہے وہیں صنعتوں کا پہیہ جام کرکے ملکی معیشت کو دھچکا پہنچا دیا ہے گھروں میں بچے بوڑھے اور بیمار طویل لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگت رہے ہیں جو لوگ صنعتی شعبے سے وابستہ ہیں وہ پیداوار نہ ہونے کے سبب مقررہ مدت میں بین الاقوامی آرڈرز کو پورا کرنے سے قاصر ہیں
جس کی وجہ سے یا تو آرڈرمنسوخ ہوجاتے ہیں یا صنعتکار سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے کیونکہ وہ ٹیکس ڈیوٹی تنخواہ توانائی کے متبادل ذرائع اور پیداواری لاگت میں توازن قائم نہیں رکھ پاتا پاکستان اپنے ٹیکسٹائل کے شعبے کی کارکردگی اوراعلیٰ معیار کے باعث پوری دنیا میں مشہور ہوا کرتا تھا لیکن بجلی اور گیس کے بحران نے انٹرنیشنل سطح پربدنام کیا ہمارا ٹیکسٹائل سیکٹر زیادہ باہر ملک منتقل ہوگیا ہے باقی دبئی کی طرف منہ کر گیا جہاں نسبتا کم لاگت میں مطلوبہ مصنوعات تیار ہوجاتی ہیں بعد میں وہی مصنوعات مہنگے داموں پاکستانی صارف تک پہنچتی ہیں اس طرح ملکی سرمایہ کا نقصان تو ہوا ہی ساتھ میں ان ملز اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور بیروزگار ہوگئے سامان کی ترسیل خام مال وغیرہ کی مد میں جونقصان ہوا وہ الگ یوں ایک چین ری ایکشن کی طرح انرجی کرائسسز ہماری معیشت کو کھا رہا ہے
انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق پاکستان میں اگلے پانچ سات سالوں میں توانائی کی طلب 49000 میگاواٹ سے تجاوز کر جائے گی کیا حکومت اس طلب کو پورا کرنے کے لئے تیار ہے پاکستان میں موجودہ اور مستقبل میں بننے والے آبی اور توانائی کے منصوبوں پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس بحران کے ذمہ دار حکومت اور ہم خود ہیں ہم نے توانائی کے حصول اور ذرائع پر توجہ نہیں دی۔ ہم نے پانی بجلی اور توانائی کے دیگر ذرائع میں توازن نہیں رکھا ہم نے 1960 کی دہائی کے بعد کوئی ڈیم کوئی منصوبہ شروع کرنے کی زحمت ہی نہیں کی حالانکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت ہمیں ہر دس سال میں پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبے بنانے تھے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کسی حکومت نے اس پر کام تو کجا اس طرف توجہ ہی نہیں دی۔ یوں لگتا ہے جیسے حکومتیں روزانہ کی بنیاد پر پلاننگ کرکے اپنے امور انجام دیتی رہیں اور مستقبل کی طرف نگاہ ہی نہیں کی۔
کسی نے سوچا ہی نہیں کہ کل کو دریاؤں میں پانی کی سطح کم ہوگئی تو کیا ہوگا یا بھارت نے اپنے ڈیموں کی تعداد بڑھانی شروع کی تو ہمارا کیا بنے گا اور یہ ہی ہوا موسمیاتی تغیرات نے ہمارا انحصار بھارت کی طرف سے چھوڑے جانے والے پانی پر بڑھادیا بھارت نے ہماری غفلت اور موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے دریاؤں کا پانی روکنا شروع کردیا اور اپنے ملک میں پانی کے ذخائر بڑھانے کے لئے ڈیمز تعمیر کرنے شروع کردئیے نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ ہم پانی اوربجلی کے ایسے بحران کا سامنا کررہے ہیں جو ہمارا مستقبل نگلنے کو تیار بیٹھا ہیانہوں نے کہا کہ لیکن آج کے بچے بہت باخبر اور با شعور ہیں وہ ملک کے سسٹم پر بھی بات کرتے ہیں اور مبینہ کرپشن کی کہانیوں پر بھی انہیں لاروں اوروعدوں سے مطمئن نہیں کیا جاسکتا یہ ہم سے اپنے خدشات میں گھرے مستقبل کی بازپرس کرتے ہیں جس کا جواب میرے جیسا عام آدمی کیا دے گا اور جن کو جواب دینا چاہئیے اور شاید کبھی جواب دہ ہونا پڑے بھی وہ الگ دنیا بسائے اپنے ہی جوڑ توڑ میں مگن ہیں#/s#

متعلقہ خبریں