اسمبلیاں تحلیل ہوئیں تو ضمنی الیکشن عام انتخابات تک موخر بھی ہوسکتے ہیں، وزیر داخلہ
اسلام آباد(قدرت روزنامہ) وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی کا کوئٹہ حملے کی ذمہ داری قبول کرنا لمحہ فکریہ ہے، ٹی ٹی پی سے کافی مذاکرات ہوئے لیکن اگر ایک دھڑا واپسی کیلیے تیار ہو تو دوسرا دھڑا حملے شروع کردیتا ہے۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعے کی شدید مذمت کرتا ہوں، ٹی ٹی پی کا اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنا قابل افسوس ناک اور قابل مذمت ہے اور یہ ہمسایہ برادر ملک کے لیے بھی لمحہ فکر ہے، واقعہ تشویش ناک ضرور ہے لیکن ہم دہشت گردوں پر قابو پالیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی کے حوالے سے وزیراعظم کی سربراہی میں اجلاس میں خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کی عدم شرکت قابل افسوس ہے، خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کو چاہیے کہ دہشت گردی میں ملوث عناصر کی سرکوبی کے لیے اقدامات کرے، وفاق صوبائی حکومتوں کی ہر طرح سے مدد اور معاونت فراہم کرے گا۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ عمران خان ملک کو عدم استحکام کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہا ہے، عمران خان نے توشہ خانے سے گھڑیاں چوری کیں اور باہر ملک میں فروخت کردیں، عمران خان نے کرپشن کی گھٹیا ترین روایت قائم کی، عمران خان کو 26 نومبر کو راولپنڈی میں تاریخی ناکامی ہوئی، عمران خان نے اسلام آباد چڑھائی کا دعویٰ کیا لیکن ہمت نہیں ہوئی۔وزیر داخلہ نے کہا کہ عمران خان صوبائی اسمبلیوں کو توڑنے کی بات کرتا ہے پھر سینیٹ سے بھی استعفے دے اور صدر بھی مستعفی ہوں، اب پی ٹی آئی کی طرف سے 20 دسمبر کو اسمبلیاں توڑنے کی بات سامنے آئی ہے، بیس دن کی تاخیر کیوں تاخیر کی جارہی ہے؟ اس شخص کی پالیسی صرف اور صرف ملک کو عدم استحکام کی طرف لے جانا ہے کیوں کہ اسمبلیاں توڑنے کا عمل انتہائی غیر سیاسی ہے۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اسمبلیاں تحلیل ہوئیں تو آئین پر عمل ہوگا، اگر ضمنی الیکشن موخر ہوسکتے ہیں عام انتخابات تک تو موخر ہوجائیں گے لیکن اگر 90 روز میں ہونے ہیں تو ہوں گے، اور ہم الیکشن لڑنے کیلئے تیار ہیں۔وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم ہر صورت مدت پوری کریں گے، اسمبلیاں توڑنے سے قبل قومی اسمبلی سے استعفے دے کر پارلیمنٹ لاجز خالی کریں، جو پی ٹی آئی کے لوگ سہولتیں لے رہے ہیں وہ بھی چھوڑیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری مسلح افواج اور ادارے دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں، صوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ امن و امان کے قیام کے لئے سنجیدہ لائحہ عمل اختیار کریں۔
ٹی ٹی پی کے حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ عسکری قیادت نے ان سے مذاکرات کے معاملے پر دو بار ارکان اسمبلی کو بریفنگ دی، پارلیمنٹ نے آئینی کی حدود میں رہتے ہوئے ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی اجازت دی، مذاکرات میں عسکری قیادت کو انہیں اختیار دیا کہ اگر پُرامن طور پر وہ واپس آنا چاہیں تو ان سے بات چیت کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ امن چاہتے ہیں انہیں امن کا راستہ دیا جانا چاہیے اور یہی پارلیمنٹ میں طے ہوا تھا، باقی آپریشن تو ان کے خلاف روزانہ ہی ہو رہے ہیں اور مسلح افواج کے طاقت ور آپریشن ہورہے ہیں جس میں فوج جوان شہادتیں بھی پیش کررہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کے قتل کے لیے حکومتی کمیشن پر ان کے اہل خانہ نے اعتماد نہیں کیا، حکومت نے سپریم کورٹ کو ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کی درخواست کردی ہے، امید ہے جلد ہی سپریم کورٹ فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنا دے گی۔