پاکستان

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ازخود نوٹس کے دائرہ اختیار کیلئے قائم بنچ پر اعتراض، چیف جسٹس پاکستان کو خط بھی لکھ دیا

اسلام آباد((قدرت روزنامہ)سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ازخود نوٹس کے دائر ہ اختیار کے لئے بنائے جانے والے بینچ پراعتراض کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کو خط لکھ دیا۔نجی ٹی وی ہم نیوز کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ آئین میں سپریم کورٹ کا سماعت کیلئے مختلف دائرہ اختیار ہے۔ سپریم کورٹ کا ایسا کوئی دائرہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے ہی بینچ کے امور کی مانیٹرنگ شروع کردے،پانچ رکنی لارجر بینچ بنانے سے قبل دو رکنی بینچ کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ پانچ رکنی بینچ کو یہ مقدمہ سننے کا اختیار ہی نہیں۔ اگر پانچ رکنی لارجر بنچ نے سماعت جاری رکھی تو یہ آئین سے تجاوز ہوگا۔خط کے متن کے مطابق رجسٹرار سپریم کورٹ سرکاری ملازم ہے وہ خود کو منصف اور آئینی ماہر سمجھتا ہے۔ رجسٹرار نے فوری نوٹس لیا اور 6 صفحات پر مشتمل نوٹ چیف جسٹس کو بھجوا دیا،سرکاری ملازم کو رجسٹرار سپریم کورٹ تقرر کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ سرکاری ملازم کو رجسٹرار مقرر کرنا موجود افسران کی ترقی میں رکاوٹ کے مترادف ہے۔ عدلیہ نے ڈیپوٹیشن پر آئے ملازمین کو واپس بھیجا لیکن ملازم رجسٹرار سپریم کورٹ کام کر رہا ہے۔رجسٹرار سپریم کورٹ اس سے قبل وزیراعظم آفس میں کام کرتے رہے ہیں۔خط میں مزید کہا گیا کہ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ عدلیہ میں تقسیم ہے۔ مجھے فرائض کی ادائیگی کی وجہ سے عوامی تاثر کی بنیاد پر طنز کا نشانہ بنایا گیا۔ وزیراعظم ترقیاتی فنڈز کیس میں لارجر بنچ بنا کر جسٹس مقبول باقر کو بینچ سے الگ کر دیا گیا۔دوسر ی جانب نجی ٹی وی دنیا نیوز کے مطابق سپریم کورٹ میں صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا عدالتی حکم پررائے دینے سے پہلے کچھ وضاحت دینا چاہتا ہوں،میڈیا رپورٹس کے مطابق جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ایک خط لکھاجس میں کہاکہ ایک بینچ کی مانیٹرنگ دوسرا نہیں کرسکتااور دوسرے بینچ کی کارروائی کا جائزہ بھی نہیں لے سکتا۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 1977میں ا یک بینچ کو دوسرے کے خلاف احکامات دیتے دیکھا گیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ عمل دوبارہ نہیں دہرایا جائے گا،ضرورت کے پیش نظر ایک بینچ دوسرے کے احکامات میں ترمیم کرتا رہتا ہے لیکن احکامات پر اپنا حکم نہیں دے سکتا ، میرے خیال سے یہ مانیٹرنگ بینج نہیں ہے۔جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے کہ سب سے اہم سپریم کورٹ کا وقار اور اس کا اتحاد ہے، سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کے حکم میں مداخلت کا ارادہ نہیں ہے۔قائم مقام چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ بینچ کے حکم سے ایک مشکل سامنے آئی جس کا اتدراک ضروری ہے اور مناسب وجہ نہ ہوئی تو یہ کیس دوبارہ دو رکنی بینچ کے سامنے چلا جائے گا، ادارے پر اعتمادنہ کرنا بھی ایک اہم پہلو ہے، چیزوں کو تباہ کرنا آسان ہے لیکن بنتی مشکل سے ہیں اگر کوئی طریقہ کار وضع نہ کیا گیا تو نظام نہیں چل سکتا۔

متعلقہ خبریں