صدر عارف علوی کی حکومتی اتحاد اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کی پیشکش


اسلام آباد (قدرت روزنامہ)صدر عارف علوی نے حکومتی اتحاد اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔صدر مملکت عارف علوی نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے حکومتی اتحاد اور پی ٹی آئی کو مل کر بیٹھنے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ کم از کم سیاسی جماعتیں ہی آپس میں مذاکرات کر لیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ اتحادی حکومت پی ٹی آئی سےبات چیت میں ٹال مٹول سےکام لےرہی ہے، پی ٹی آئی اور حکومتی اتحاد میں ایک ماہ میں کسی قسم کی پیغام رسانی نہیں ہوئی۔
صدر مملکت نے کہا کہ سیاسی میدان میں آج ہر کوئی بدلہ ہی لے رہا ہے، ملک کے سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنا ناگزیر ہے۔صدرمملکت نے کہا کہ عمران خان نے موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے نام پراطمینان کا اظہار کیا تھا، موجودہ فوجی قیادت اور عمران خان کے درمیان کوئی ڈائیلاگ نہیں کروا رہا۔انہوں نے کہا کہ عمران خان، موجودہ حکومت ،ان کی ٹیمز کے درمیان بات چیت کاحامی ہوں، حکومت نے بات چیت کی ہامی تو بھری ہے مگر میں رزلٹ نہیں دیکھتا۔
’سابق آرمی چیف اورعمران خان میں اختلافات کی بڑی وجہ سوشل میڈیا ہے‘
صدر نے سابق آرمی چیف اورعمران خان میں اختلافات کی بڑی وجہ سوشل میڈیا کوقرار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا کو ان معامالات میں ضرورت سے زائد اہمیت دیں تو خرابی پیدا ہوتی ہے، پاکستان میں یوٹیوب دو سال تک بند رہا،رائےبنانے والےاس کو سنبھال نہیں سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ملک میں فیصلہ کرنےوالےسوشل میڈیا کودرست طریقےسےہینڈل نہیں کر پا رہے، میرے خیال میں اُنھیں سوشل میڈیا کو بہتر انداز میں ہینڈل کرنا چاہیے۔ملک میں عام انتخابات سے متعلق سوالات پر صدرمملکت نے کہا کہ یہ الیکشن کا سال ہے، الیکشن ہونے چاہئیں، سیاسی جماعتیں آپس میں طے کر لیں کہ الیکشن جلد یا بدیر ہوں گے۔صدرعارف علوی نے کہا کہ الیکشن کا معاملہ بات چیت سےطےکرلیں تاکہ معیشت اورلوگوں کے فلاح کا کام ہوسکے، یہ ڈائیلاگ عام انتخابات سے پہلے ہونا ضروری ہے۔
پی ٹی آئی حکومت ختم ہونے میں عمران اور سابق آرمی چیف کےتعلقات پر سوال کے جواب میں صدر علوی نے کہا کہ ایسا ہوگا، یہ تو سب پریس میں ہے، میرے پاس کوئی مخصوص معلومات نہیں۔انہوں نے کہا کہ کچھ غلط فہمیاں تھیں،جو پبلک میں بھی آرہی تھیں، کوشش کرتا تھا کہ غلط فہمیاں ختم ہوں،میری بطور صدر پاکستان آئینی ذمہ داری یہ ہے کہ فیڈریشن کو اکٹھا کروں۔انہوں نے مزید کہا کہ تعاون اختلاف سےبہترہے، یہ پاکستان کیلئےضروری ہے، یہی نصیحت ہے۔
ایک سوال کہ کیا عمران خان اورسابق آرمی چیف میں تنازع کی وجہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی تھی کے جواب میں صدر نے کہا کہ کسی ایک مخصوص شخص یا واقعے کی بات نہیں کروں گا، کون تھا جو لچک نہیں دکھا رہا تھا؟ انہیں یہ کہہ رہا تھا کہ نظرانداز کرو، سوشل میڈیا بھی نظرانداز کرو۔
صدر علوی نے کہا کہ معیشت میں بہتری کےامکانات موجود ہیں، خرابی کا الارم بھی غلط ہے، میں سب کو یہی بتا رہا ہوں کہ اس سمت میں مت جاؤ، تعاون کرو اور کام چلاؤ، میری سنی گئی ہوتی تو بہتر ہوتا۔انہوں نے کہا کہ میں فلسفی تو نہیں ہوں کہ میری سنی جائے، اس زمانے کے سروے دیکھیں تو ساری قوم کہہ رہی تھی کہ بات چیت کی جائے، مجھے خود بھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ کون زیادہ ریلکٹنٹ تھا، جب میں کہتا ہوں کہ درگزر کرو تو لوگ ایسا کر نہیں پاتے۔
سابق آرمی چیف کو توسیع کی پیشکش کےسوال پر صدر مملکت عارف علوی نے جواب مین کہا کہ میں ان باتوں سے واقف نہیں کہ کیا آفرز تھیں، میں نے یہی کہا تھا کہ مل بیٹھ کر غلط فہمیاں دور کی جائیں، کوئی بھی پارٹی ہو، اپوزیشن،حکومت یااسٹیبلشمنٹ، میں وہ کرنے کو تیار ہوں کہ لوگ قریب آئیں۔