ہم سب ملکی سیاسی صورتِ حال کے ذمے دار ہیں: شاہد خاقان عباسی


کوئٹہ(قدرت روزنامہ)مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے اعتراف کیا ہے کہ ہم سب ملکی سیاسی صورتِ حال کے ذمے دار ہیں۔کوئٹہ پریس کلب میں مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے مفتاح اسماعیل، مصطفیٰ نواز کھوکھر اور لشکری رئیسانی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ نے نواز شریف کے ساتھ بہت ناانصافی کی، جوڈیشیری بھی ان فیصلوں کو دیکھے جن کے اثرات ملک پر پڑے، ان کے فیصلوں کےاثرات کا نتیجہ آج بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے حقائق بہت تلخ ہیں، حقائق وہ نہیں جوٹی وی پر دکھائے جاتے ہیں یا اخبار میں بتائے جاتے ہیں، آج سیاست ایک دوسرے کو گالی دینے اور الزامات لگانے کا نام ہے، یہ سیاست ملک کے مسائل حل نہیں کر سکتی۔سابق وزیرِ اعظم کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز کوئٹہ میں قومی ڈائیلاگ منعقد ہوا تھا، آج کی سیاست انتقام اور دشمنی کی سیاست بن گئی ہے، ان سب مسائل پر بات کرنے کے لیے ایک فورم رکھا جس کی ابتداء کوئٹہ سے ہوئی ہے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ غیر جماعتی فورم ہونا چاہیے جہاں پاکستان کے مسائل پر بات کی جائے، ہم آئین کی بات کرتے ہیں، آئین پر مکمل عمل کرنا چاہیے۔ان کا کہنا ہے کہ ہم مسائل کے حل کا دعویٰ نہیں کرتے، ملک میں سیاسی استحکام کی ضرورت ہے، اگر نئے سوشل کانٹریکٹ کی ضرورت ہے تو وہ بھی سیاسی نظام سے آئے گا۔مسلم لیگ ن کے رہنما نے کہا کہ اگر ذمے داری لگانی ہے تو ٹرتھ کمیشن بنائیں، نواز شریف کے ساتھ ناانصافیوں کا ازالہ ہونا چاہیے۔
سابق وزیر کا کہنا ہے کہ ہم نے غیر جماعتی بنیاد پر بات کی ہے، بنیادی خرابیوں کے نتائج 8 ماہ میں دور نہیں کر سکتے، عدلیہ بھی ان فیصلوں کو دیکھے جن کے اثرات ملک پر پڑے، کل بلوچستان کے مسائل کے علاوہ ملکی معاشی اور سیاسی حالات کے بارے میں بات ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں دھونس دھمکیوں اور انتقام کی سیاست رہ گئی ہے، سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر عوام، ملک کے بارے میں بات چیت کے لیے فورم درکار تھا، جو فورم درکار تھا وہ لشکری رئیسانی نے فراہم کیا۔شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ آج دیکھا جائے کہ بلوچستان کے ایم این ایز، ایم پی ایز اور سینیٹرز واقعی یہاں کے عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں، یہ کیفیت پورے ملک کی بھی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک کو درپیش مسائل کا حل آئین میں موجود ہے دیکھنا یہ ہے کہ کیا آئین ناکام ہے یا ہم نے خود اسے ناکام کیا، ہمیں سیاسی سیٹ اپ کا رخ تبدیل کر کے عوامی مسائل تک لے کر آنا ہے، الیکشن جب ہوں گے ہم جس جماعت میں ہیں وہیں سے الیکشن لڑیں گے۔