احتیاط افسوس سے بہتر، خواتین ہجوم والی جگہوں پر جانے سے پرہیز کریں

اسلام آباد(قدرت روزنامہ) پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی سینیٹر عابدہ عظیم کا کہنا ہے کہ عائشہ اکرام کے ساتھ جو ہوا وہ افسوسناک ہے لیکن احتیاط افسوس سے بہتر ہے لہذا خواتین ہجوم والی جگہوں پر جانے سے پرہیز کریں۔نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کے دوران انہوں نے مزید کہا کہ مینار پاکستان واقعہ غیر اخلاقی اور انسانی حقوق کی پامالی ہے تاہم خواتین کو بھی احتیاط کرنی چاہئیے۔
سینیٹر عابدہ عظیم نے کہا کہ انہوں نے سینیت قائمہ کمیٹی اجلاس میں یہ نہیں کہا تھا کہ غلطی خاتون کی ہے لیکن ہمیں اپنے معاشرتی اقدار اور مذہبی احکامات کی پاسداری کرنی چاہئیے۔انہوں نے کہا کہ خواتین کو خود ایسے شور شرابے اور ہجوم والی جگہوں پرنہیں جانا چاہئیے خصوصا ان جگہوں پر جہاں انہیں کوئی خطرہ محسوس ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ خود بازار جاتی ہیں، پارلیمنٹ اکیلی جاتی ہیں لیکن دفتر ، بازار اور مینار پاکستان جیسے مذکورہ ماحول میں زمین اور آسامن کا فرق ہے لہذا خواتین کو خود ایسے ایونٹس میں جانے سے گریز کرنا چایئیے۔

دوسری جانب فاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے پارکوں میں خواتین کی انٹری کے اوقات کار متعین کرنے پر پنجاب حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ عورتوں پر پابندی کے بجائے سنگل افراد کے داخلے پر پابندی لگائیں، عورتوں کیلئے بہتر ماحول بنائیں پابندیاں نہ لگائیں۔سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کا اجلاس سینیٹر ولید اقبال کی زیر صدارت ہوا جس میں 14 اگست کو مینار پاکستان پر ٹک ٹاکر عائشہ اکرم کے ساتھ ہونے والے بدسلوکی کے واقعے کی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔
دوران اجلاس وزارت انسانی حقوق نے مینار پاکستان واقعے کی رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ ملک میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو مانیٹر کرتے رہتے ہیں۔ وزارت انسانی حقوق نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ مینار پاکستان کا واقعہ 14 اگست کو پیش آیا، وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے معاملے کا نوٹس لیا اور ایف آئی آر کے اندراج کو یقینی بنوایا، مینار پاکستان واقعے میں ملوث افراد کو گرفتار کیا گیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 141 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا اور شناخت پریڈ کروائی گئی جس میں عائشہ اکرم نہیں آئیں، واقعے میں ملوث ملزمان کی شناخت کے لیے کل ایک شناخت پریڈ ہوئی جس میں عائشہ اکرم خود آئیں، عائشہ اکرم نے 6 افراد کی شناخت کرلی ہے جن کو گرفتار کر لیا گیا ہے، واقعے کی مزید تحقیقات کے لیے 4 خصوصی کمیٹیاں قائم کر دی گئی ہیں۔
اس موقع پر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے پنجاب کے پارکوں میں عورتوں کی انٹری کے اوقات کار متعین کرنے پر صوبائی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عورتوں پر پابندی کے بجائے سنگل افراد کے داخلے پر پابندی لگائی جائے۔شیریں مزاری کا کہنا تھا پارکوں میں عورتوں کے لیے وقت کا تعین تعجب والی بات ہے، پنجاب حکومت پابندیاں لگانے کے بجائے عورتوں کے لیے ماحول بہتر بنائے۔